مواقیت الصلوة

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا

کہا

مجھ سے ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب سے

انہوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے

انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ

انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ

تم سے پہلے کی امتوں کے مقابلہ میں تمہاری زندگی صرف اتنی ہے

جتنا عصر سے سورج ڈوبنے تک کا وقت ہوتا ہے

تورات والوں کو تورات دی گئی

تو انھوں نے اس پر ( صبح سے ) عمل کیا

آدھے دن تک پھر وہ عاجز آ گئے

کام پورا نہ کر سکے

ان لوگوں کو ان کے عمل کا بدلہ ایک ایک قیراط دیا گیا

پھر انجیل والوں کو انجیل دی گئی

انھوں نے ( آدھے دن سے ) عصر تک اس پر عمل کیا

اور وہ بھی عاجز آ گئے

ان کو بھی ایک ایک قیراط ان کے عمل کا بدلہ دیا گیا

پھر ( عصر کے وقت ) ہم کو قرآن ملا

ہم نے اس پر سورج کے غروب ہونے تک عمل کیا ( اور کام پورا کر دیا )

ہمیں دو دو قیراط ثواب ملا

اس پر ان دونوں کتاب والوں نے کہا

اے ہمارے پروردگار ! انہیں تو آپ نے دو دو قیراط دئیے

اور

ہمیں صرف ایک ایک قیراط

حالانکہ

عمل ہم نے ان سے زیادہ کیا

اللہ عزوجل نے فرمایا

تو کیا میں نے اجر دینے میں تم پر کچھ ظلم کیا

انھوں نے عرض کی کہ نہیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

پھر یہ ( زیادہ اجر دینا ) میرا فضل ہے جسے میں چاہوں دے سکتا ہوں

ہم سے ابوکریب محمد بن علانے بیان کیا

کہا ہم سے

ابواسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطہ سے بیان کیا

انہوں نے ابوبردہ عامر بن عبداللہ سے

انہوں نے اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے

انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں اور یہود و نصاری کی مثال

ایک ایسے شخص کی سی ہے کہ

جس نے کچھ لوگوں سے مزدوری پر رات تک کام کرنے کے لئے کہا

انہوں نے آدھے دن کام کیا

پھر جواب دے دیا کہ

ہمیں تمہاری اجرت کی ضرورت نہیں

( یہ یہود تھے ) پھر اس شخص نے دوسرے مزدور بلائے

اور ان سے کہا کہ

دن کا جو حصہ باقی بچ گیا ہے ( یعنی آدھا دن ) اسی کو پورا کر دو

شرط کے مطابق مزدوری تمہیں ملے گی

انہوں نے بھی کام شروع کیا

لیکن عصر تک وہ بھی جواب دے بیٹھے

( یہ نصاریٰ تھے ) پس اس تیسرے گروہ نے ( جو اہل اسلام ہیں )

پہلے دو گروہوں کے کام کی پوری مزدوری لے لی

باب وَقْتِ الْمَغْرِبِ

وَقَالَ عَطَاءٌ يَجْمَعُ الْمَرِيضُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ.

ہم سے محمد بن مہران نے بیان کیا

کہا ہم سے ولید بن مسلمہ نے

انھوں نے کہا کہ

ہم سے عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی نے بیان کیا

کہا مجھ سے ابوالنجاشی نے بیان کیا

ان کا نام عطاء بن صہیب تھا

اور یہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے غلام ہیں

انھوں نے کہا کہ

میں نے رافع بن خدیج سے سنا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

ہم مغرب کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ کر

جب واپس ہوتے اور تیراندازی کرتے ( تو اتنا اجالا باقی رہتا تھا کہ )

ایک شخص اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھتا تھا

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا

کہا ہم سے محمد بن جعفر نے

کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے سعد بن ابراہیم سے

انھوں نے محمد بن عمرو بن حسن بن علی سے

انھوں نے کہا کہ

حجاج کا زمانہ آیا

( اور وہ نماز دیر کر کے پڑھایا کرتا تھا اس لیے

ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے اس کے بارے میں پوچھا

تو انھوں نے فرمایا کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز ٹھیک دوپہر میں پڑھایا کرتے تھے

ابھی سورج صاف اور روشن ہوتا تو نماز عصر پڑھاتے

نماز مغرب وقت آتے ہی پڑھاتے اور نماز عشاء کو کبھی جلدی پڑھاتے

اور کبھی دیر سے

جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں

تو جلدی پڑھا دیتے

اور

اگر لوگ جلدی جمع نہ ہوتے تو نماز میں دیر کرتے

( اور لوگوں کا انتظار کرتے )

اور

صبح کی نماز صحابہ رضی اللہ عنہم یا ( یہ کہا کہ )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں پڑھتے تھے

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا

انھوں نے کہا

ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے

فرمایا کہ

ہم نماز مغرب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت پڑھتے تھے

جب سورج پردے میں چھپ جاتا

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا

کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا

کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا

کہا میں نے جابر بن زید سے سنا

وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے بیان کرتے تھے

آپ نے فرمایا کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات رکعات ( مغرب اور عشاء کی )

ایک ساتھ آٹھ رکعات ( ظہر اور عصر کی نمازیں ) ایک ساتھ پڑھیں

باب مَنْ كَرِهَ أَنْ يُقَالَ لِلْمَغْرِبِ الْعِشَاءُ

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا

جو عبداللہ بن عمرو ہیں

کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے حسین بن ذکوان سے بیان کیا

کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے

کہا مجھ سے عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ایسا نہ ہو کہ ’’ مغرب ‘‘ کی نماز کے نام کے لیے اعراب ( یعنی دیہاتی لوگوں ) کا محاورہ تمہاری زبانوں پر چڑھ جائے

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا

یا خود

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدوی مغرب کو عشاء کہتے تھے

ہم سے عبدان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا

انھوں نے کہا

ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی

انھوں نے کہا

ہمیں یونس بن یزید نے خبر دی زہری سے کہ سالم نے یہ کہا کہ

مجھے ( میرے باپ ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ

ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی

یہی جسے لوگ «عتمه» کہتے ہیں

پھر ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ

تم اس رات کو یاد رکھنا

آج جو لوگ زندہ ہیں

ایک سو سال کے گزرنے تک روئے زمین پر ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا

باب وَقْتِ الْعِشَاءِ إِذَا اجْتَمَعَ النَّاسُ أَوْ تَأَخَّرُوا

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا

کہا ہم سے شعبہ حجاج نے سعد بن ابراہیم سے بیان کیا

وہ محمد بن عمرو سے جو حسن بن علی بن ابی طالب کے بیٹے ہیں ، فرمایا کہ

ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں دریافت کیا

تو آپ نے فرمایا کہ

آپ نماز ظہر دوپہر میں پڑھتے تھے

اور

جب نماز عصر پڑھتے تو سورج صاف روشن ہوتا

مغرب کی نماز واجب ہوتے ہی ادا فرماتے

اور

’’ عشاء ‘‘ میں اگر لوگ جلدی جمع ہو جاتے تو جلدی پڑھ لیتے

اور

اگر آنے والوں کی تعداد کم ہوتی تو دیر کرتے

اور صبح کی نماز منہ اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے

باب فَضْلِ الْعِشَاءِ

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا

انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطے سے بیان کیا

انھوں نے ابن شہاب سے

انھوں نے عروہ سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ

ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز دیر سے پڑھی

یہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کا واقعہ ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک باہر تشریف نہیں لائے

جب تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہ فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے

پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا

کہ

تمہارے علاوہ دنیا میں کوئی بھی انسان اس نماز کا انتظار نہیں کرتا

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا کہا

ہم سے ابواسامہ نے برید کے واسطہ سے

انھوں نے ابربردہ سے انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے

آپ نے فرمایا کہ

میں نے اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ جو کشتی میں میرے ساتھ ( حبشہ سے ) آئے تھے

’’ بقیع بطحان ‘‘ میں قیام کیا

اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف رکھتے تھے

ہم میں سے کوئی نہ کوئی عشاء کی نماز میں روزانہ باری مقرر کر کے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا

اتفاق سے میں اور میرے ایک ساتھی ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام میں مشغول تھے

( کسی ملی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گفتگو فرما رہے تھے )

جس کی وجہ سے نماز میں دیر ہو گئی

اور

تقریباً آدھی رات گزر گئی

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے

اور

نماز پڑھائی نماز پوری کر چکے تو حاضرین سے فرمایا

کہ

اپنی اپنی جگہ پر وقار کے ساتھ بیٹھے رہو

اور

ایک خوشخبری سنو

تمہارے سوا دنیا میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جو اس وقت نماز پڑھتا ہو

یا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا

کہ

تمہارے سوا اس وقت کسی ( امت ) نے بھی نماز نہیں پڑھی تھی

یہ یقین نہیں کہ

آپ نے ان دو جملوں میں سے کون سا جملہ کہا تھا

پھر راوی نے کہا

کہ

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا

پس ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر بہت ہی خوش ہو کر لوٹے

باب مَا يُكْرَهُ مِنَ النَّوْمِ قَبْلَ الْعِشَاءِ

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا

انھوں نے کہا

ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا

انھوں نے کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ابوالمنہال سے

انھوں نے ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے

اور

اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے

باب النَّوْمِ قَبْلَ الْعِشَاءِ لِمَنْ غُلِبَ

ہم سے ایوب بن سلیمان نے بیان کیا

کہا ہم سے ابوبکرنے سلیمان سے

ان سے صالح بن کیسان نے بیان کیا کہ

مجھے ابن شہاب نے عروہ سے خبر دی کہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عشاء کی نماز میں دیر فرمائی

یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے پکارا

نماز ! عورتیں اور بچے سب سو گئے

تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کہ

روئے زمین پر تمہارے علاوہ اور کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کرتا

راوی نے کہا

اس وقت یہ نماز ( باجماعت ) مدینہ کے سوا اور کہیں نہیں پڑھی جاتی تھی

صحابہ اس نماز کو شام کی سرخی کے غائب ہونے کے بعد

رات کے پہلے تہائی حصہ تک ( کسی وقت بھی ) پڑھتے تھے

ہم سے محمود نے بیان کیا

انھوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا

انھوں نے کہا

ہمیں ابن جریج نے خبر دی

انھوں نے کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی

انھوں نے کہا

مجھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات کسی کام میں مشغول ہو گئے

اور بہت دیر کی

ہم ( نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ) مسجد ہی میں سو گئے

پھر ہم بیدار ہوئے

پھر ہم سو گئے

پھر ہم بیدار ہوئے

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے

اور فرمایا کہ

دنیا کا کوئی شخص بھی تمہارے سوا اس نماز کا انتظار نہیں کرتا

اگر نیند کا غلبہ نہ ہوتا تو

ابن عمر رضی اللہ عنہما عشاء کو پہلے پڑھنے یا بعد میں پڑھنے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے

کبھی نماز عشاء سے پہلے آپ سو بھی لیتے تھے

ابن جریج نے کہا میں نے عطاء سے معلوم کیا

میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا تھا

کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز میں دیر کی

جس کے نتیجہ میں لوگ ( مسجد ہی میں ) سو گئے

پھر بیدار ہوئے پھر سو گئے

پھر بیدار ہوئے

آخر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اٹھے اور پکارا

’’ نماز ‘‘ عطاء نے کہا کہ

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ

اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے تشریف لائے

وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے ہے جب کہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے

اور

آپ ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھے

آپ نے فرمایا کہ

اگر میری امت کے لیے مشکل نہ ہو جاتی

تو میں انہیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو اسی وقت پڑھیں

میں نے عطاء سے مزید تحقیق چاہی کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سر پر رکھنے کی کیفیت کیا تھی ؟

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں اس سلسلے میں کس طرح خبر دی تھی

اس پر حضرت عطاء نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں تھوڑی سی کھول دیں

اور انہیں سر کے ایک کنارے پر رکھا پھر انہیں ملا کر یوں سر پر پھیرنے لگے

کہ

ان کا انگوٹھا کان کے اس کنارے سے جو چہرے سے قریب ہے اور داڑھی سے جا لگا

نہ سستی کی اور نہ جلدی

بلکہ

اس طرح کیا اور کہا کہ

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

اگر میری امت پر مشکل نہ گزرتی تو میں حکم دیتا

کہ

اس نماز کو اسی وقت پڑھا کریں

باب وَقْتِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ

وَقَالَ أَبُو بَرْزَةَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحِبُّ تَأْخِيرَهَا

ہم سے عبدالرحیم محاربی نے بیان کیا

کہا ہم سے زائدہ نے حمید طویل سے

انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے

کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے

( ایک دن ) عشاء کی نماز آدھی رات گئے پڑھی

اور فرمایا کہ

دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو گئے ہوں گے

( یعنی دوسری مساجد میں پڑھنے والے مسلمان )

اور

تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے

( گویا سارے وقت ) نماز ہی پڑھتے رہے

ابن مریم نے اس میں یہ زیادہ کیا کہ

ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی

کہا مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا

انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ سنا

گویا

اس رات آپ کی انگوٹھی کی چمک کا نقشہ

اس وقت بھی میری نظروں کے سامنے چمک رہا ہے