مواقیت الصلوة

باب 358 سخت گرمی میں ظہر کی نماز ذرا ٹھنڈے وقت پڑہنا

حدیث 506

ہم سے ایوب بن سلیمان مدنی نے بیان کیا

کہا ہم سے

ابوبکر عبدالحمید بن ابی اویس نے سلیمان بن بلال کے واسطہ سے

کہ

صالح بن کیسان نے کہا کہ

ہم سے اعرج عبدالرحمٰن وغیرہ نے حدیث بیان کی

وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے

اور

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مولیٰ نافع عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے

اس حدیث کی روایت کرتے تھے کہ

ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی

کہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گرمی تیز ہو جائے

تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو

کیونکہ

گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہوتی ہے

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا

کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا

ان سے شعبہ بن حجاج نے مہاجر ابوالحسن کی روایت سے بیان کیا

انھوں نے زید بن وہب ہمدانی سے سنا

انھوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن ( بلال ) نے ظہر کی اذان دی

تو

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کہ

ٹھنڈا کر ٹھنڈا کر یا یہ فرمایا کہ انتظار کر انتظار کر

اور فرمایا

کہ

گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہے

اس لیے جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو

پھر ظہر کی اذان اس وقت کہی گئی

جب ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لیے

حدیث 508

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا

کہا ہم سے

سفیان بن عیینہ نے بیان کیا

کہا

اس حدیث کو ہم نے زہری سے سن کر یاد کیا

وہ سعید بن مسیب کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں

وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے

وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ

جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو

کیونکہ

گرمی کی تیزی دوزخ کی آگ کی بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہے

دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ

اے میرے رب !

( آگ کی شدت کی وجہ سے ) میرے بعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا ہے

اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی

ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں

اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو

وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے

حدیث 509

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا

کہا

مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا

کہا

ہم سے اعمش نے بیان کیا

کہا کہ ہم سے

ابوصالح ذکوان نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

( کہ گرمی کے موسم میں ) ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو

کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے

اس حدیث کی متابعت سفیان ثوری

یحییٰ اور ابوعوانہ نے اعمش کے واسطہ سے کی ہے

باب 359 سفر میں ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑہنا

حدیث 510

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا

کہا ہم سے

بنی تیم اللہ کے غلام مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا

کہا کہ

میں نے زید بن وہب جہنی سے سنا

وہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے کہ

انھوں نے کہا کہ

ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے

مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے

لیکن

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

وقت کو ٹھنڈا ہونے دو

مؤذن نے ( تھوڑی دیر بعد ) پھر چاہا کہ

اذان دے

لیکن

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دو

جب ہم نے ٹیلے کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا

( تب اذان کہی گئی )

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ کی تیزی سے ہے

اس لیے جب گرمی سخت ہو جایا کرے

تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا

يتفيئو ( کا لفظ جو سورۃ النحل میں ہے ) کے معنے تتميل‏ ( جھکنا ، مائل ہونا ) ہیں

ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا

کہا ہم سے شعیب نے زہری کی روایت سے بیان کیا

انھوں نے کہا کہ

مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ

جب سورج ڈھلا تو

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ سے باہر تشریف لائے

اور

ظہر کی نماز پڑھی

پھر منبر پر تشریف لائے

اور قیامت کا ذکر فرمایا

اور

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت میں بڑے عظیم امور پیش آئیں گے

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

اگر کسی کو کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لے

کیونکہ

جب تک میں اس جگہ پر ہوں تم مجھ سے جو بھی پوچھو گے

میں اس کا جواب ضرور دوں گا

لوگ بہت زیادہ رونے لگے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر فرماتے جاتے تھے کہ

جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو

عبداللہ بن حذافہ سہمی کھڑے ہوئے اور دریافت کیا کہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ کون ہیں ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

تمہارے باپ حذافہ تھے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب بھی برابر فرما رہے تھے کہ

پوچھو کیا پوچھتے ہو

اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ ادب سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے

اور

انھوں نے فرمایا کہ

ہم اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے

اسلام کے دین ہونے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے سے راضی اور خوش ہیں

( پس اس گستاخی سے ہم باز آتے ہیں کہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا اور بے جا سوالات کریں )

اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

ابھی ابھی میرے سامنے جنت اور جہنم اس دیوار کے کونے میں پیش کی گئی تھی

پس میں نے نہ ایسی کوئی عمدہ چیز دیکھی ( جیسی جنت تھی )

اور نہ کوئی ایسی بری چیز دیکھی ( جیسی دوزخ تھی )

باب

حدیث

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا

کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا

ابوالمنہال کی روایت سے

انھوں نے ابوبرزہ ( فضلہ بن عبید رضی اللہ عنہ ) سے

انھوں نے کہا کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز اس وقت پڑھتے تھے

جب ہم اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص کو پہچان لیتے تھے

صبح کی نماز میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھتے

اور

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا

اور

عصر کی نماز اس وقت کہ ہم مدینہ منورہ کی آخری حد تک ( نماز پڑھنے کے بعد ) جاتے

لیکن

سورج اب بھی تیز رہتا تھا

نماز مغرب کا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جو وقت بتایا تھا وہ مجھے یاد نہیں رہا

اور

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کو تہائی رات تک دیر کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے

پھر ابوالمنہال نے کہا کہ

آدھی رات تک ( موخر کرنے میں ) کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے

اور

معاذ نے کہا کہ شعبہ نے فرمایا کہ

پھر میں دوبارہ ابوالمنہال سے ملا تو انھوں نے فرمایا ” یا تہائی رات تک “

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا

انھوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی

انھوں نے کہا

ہم سے خالد بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا

انھوں نے کہا مجھ سے

غالب قطان نے بکر بن عبداللہ مزنی کے واسطہ سے بیان کیا

انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا کہ

جب ہم ( گرمیوں میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے

ظہر کی نماز دوپہر دن میں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لیے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے

باب تَأْخِيرِ الظُّهْرِ إِلَى الْعَصْرِ

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا

کہا ہم سے

حماد بن زید نے بیان کیا عمرو بن دینار سے

انھوں نے جابر بن زید سے

انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہ کر سات رکعات ( ایک ساتھ )

اور

آٹھ رکعات ( ایک ساتھ ) پڑھیں

ظہر اور عصر ( کی آٹھ رکعات )

اور

مغرب اور عشاء ( کی سات رکعات ) ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے پوچھا

شاید برسات کا موسم رہا ہو

جابر بن زید نے جواب دیا کہ غالباً ایسا ہی ہو گا

باب وَقْتِ الْعَصْرِ

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا

کہا ہم سے انس بن عیاض لیثی نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا

انھوں نے اپنے والد سے

کہ

حضرت مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا

کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ

ان کے حجرہ میں سے ابھی دھوپ باہر نہیں نکلتی تھی

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا

کہا ہم سے

لیث بن سعد نے ابن شہاب سے بیان کیا ،

انھوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے

انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی تو دھوپ ان کے حجرہ ہی میں تھی

سایہ وہاں نہیں پھیلا تھا

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا

کہا ہم سے

سفیان بن عیینہ نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا

انھوں نے عروہ سے

انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے

آپ نے فرمایا کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج ابھی میرے حجرے میں جھانکتا رہتا تھا

ابھی سایہ نہ پھیلا ہوتا تھا

ابوعبداللہ ( امام بخاری ) کہتے ہیں کہ

امام مالک اور یحییٰ بن سعید شعیب رحمہم اللہ اور ابن ابی حفصہ کے روایتوں میں ( زہری سے )

والشمس قبل أن تظهر‏ کے الفاظ ہیں ، ( جن کا مطلب یہ ہے کہ دھوپ ابھی اوپر نہ چڑھی ہوتی )

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا

انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی

انھوں نے کہا

ہمیں عوف نے خبر دی سیار بن سلامہ سے

انھوں نے بیان کیا کہ

میں اور میرے باپ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے

ان سے میرے والد نے پوچھا کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کن وقتوں میں پڑھتے تھے

انھوں نے فرمایا کہ

دوپہر کی نماز جسے تم پہلی نماز کہتے ہو سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے

اور

جب عصر پڑھتے اس کے بعد کوئی شخص

مدینہ کے انتہائی کنارہ پر اپنے گھر واپس جاتا

تو سورج اب بھی تیز ہوتا تھا

سیار نے کہا کہ

مغرب کے وقت کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا تھا

وہ مجھے یاد نہیں رہا

اور

عشاء کی نماز جسے تم عتمه کہتے ہو

اس میں دیر کو پسند فرماتے تھے

اور

اس سے پہلے سونے کو

اور

اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے

اور

صبح کی نماز سے اس وقت فارغ ہو جاتے

جب آدمی اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان سکتا

اور

صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھا کرتے تھے

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا

وہ امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے

انھوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے روایت کیا

انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے

اس حدیث کو روایت کیا

انھوں نے فرمایا کہ

ہم عصر کی نماز پڑھ چکتے

اور

اس کے بعد کوئی بنی عمرو بن عوف ( قباء ) کی مسجد میں جاتا

تو ان کو وہاں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا

انھوں نے کہا

ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی

انھوں نے کہا

ہمیں ابوبکر بن عثمان بن سہل بن حنیف نے خبر دی

انھوں نے کہا

میں نے ابوامامہ ( سعد بن سہل ) سے سنا ، وہ کہتے تھے کہ

ہم نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی

پھر ہم نکل کر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا

آپ نماز پڑھ رہے ہیں

میں نے عرض کی کہ

اے مکرم چچا ! یہ کون سی نماز آپ نے پڑھی ہے

فرمایا کہ عصر کی

اور

اسی وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہ نماز پڑھتے تھے

ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ

کہا ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی

انھوں نے کہا کہ

مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا

انھوں نے فرمایا کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج بلند اور تیز روشن ہوتا تھا

پھر ایک شخص مدینہ کے بالائی علاقہ کی طرف جاتا

وہاں پہنچنے کے بعد بھی سورج بلند رہتا تھا

( زہری نے کہا کہ )

مدینہ کے بالائی علاقہ کے بعض مقامات تقریباً چار میل پر یا کچھ ایسے ہی واقع ہیں

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا

کہا

ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابن شہاب زہری کے واسطہ سے خبر دی

انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ

آپ نے فرمایا ہم عصر کی نماز پڑھتے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ )

اس کے بعد کوئی شخص قباء جاتا اور جب وہاں پہنچ جاتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا

کہا

ہمیں امام مالک نے نافع کے ذریعہ سے خبر پہنچائی

انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی نماز عصر چھوٹ گئی

گویا

اس کا گھر اور مال سب لٹ گیا

امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ

سورۃ محمد میں جو يترکم کا لفظ آیا ہے وہ وتر سے نکالا گیا ہے

وترکہتے ہیں کسی شخص کا کسی آدمی کو مار ڈالنا

یا اس کا مال چھین لینا

باب مَنْ تَرَكَ الْعَصْرَ

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا

انھوں نے کہا ہم سے

ہشام بن عبداللہ دستوائی نے بیان کیا

کہا ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر نے

ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے خبر دی

انھوں نے ابوالملیح سے

کہا

ہم بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ

ایک سفر جنگ میں تھے

ابر و بارش کا دن تھا

آپ نے فرمایا کہ

عصر کی نماز جلدی پڑھ لو

کیونکہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی

اس کا نیک عمل ضائع ہو گیا

باب فَضْلِ صَلاَةِ الْعَصْرِ

ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا

کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے

کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے

انھوں نے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے

انھوں نے کہا کہ ہم نب

کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند پر ایک نظر ڈالی پھر فرمایا کہ

تم اپنے رب کو ( آخرت میں ) اسی طرح دیکھو گے

جیسے اس چاند کو اب دیکھ رہے ہو

اس کے دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہو گی

پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ

سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز ( فجر )

اور

سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز ( عصر )

سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے

تو ایسا ضرور کرو

پھر

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ

’’ پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر

سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے

‘‘ اسماعیل ( راوی حدیث ) نے کہا کہ

( عصر اور فجر کی نمازیں ) تم سے چھوٹنے نہ پائیں

ان کا ہمیشہ خاص طور پر دھیان رکھو

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا

کہا

ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابوالزناد عبداللہ بن ذکوان سے

انھوں نے عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج سے

انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں

اور

فجر اور عصر کی نمازوں میں

( ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا ) اجتماع ہوتا ہے

پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے

جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے

حالانکہ

وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے

کہ

میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا

وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو

وہ ( فجر کی ) نماز پڑھ رہے تھے

اور

جب ان کے پاس گئے ت

ب بھی وہ ( عصر کی ) نماز پڑھ رہے تھے

باب مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ الْغُرُوبِ

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا

انھوں نے کہا ہم سے

شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے

انھوں نے ابوسلمہ سے

انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

اگر

عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی

کوئی شخص سورج غروب ہونے سے پہلے پا سکا تو پوری نماز پڑھے

( اس کی نماز ادا ہوئی نہ قضاء )

اسی طرح اگر

سورج طلوع ہونے سے پہلے

فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پا سکے تو پوری نماز پڑھے