آڈیو 6

حدیث 86

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ

قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ

عَنْ فَاطِمَةَ

عَنْ أَسْمَاءَ

قَالَتْ أَتَيْتُ عَائِشَةَ وَهِيَ تُصَلِّي فَقُلْتُ مَا شَأْنُ النَّاسِ فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاءِ

فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ، فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللَّهِ‏

قُلْتُ آيَةٌ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا

أَىْ نَعَمْ

فَقُمْتُ حَتَّى تَجَلاَّنِي الْغَشْىُ

فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي الْمَاءَ

فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَأَثْنَى عَلَيْهِ

ثُمَّ قَالَ ‏

مَا مِنْ شَىْءٍ لَمْ أَكُنْ أُرِيتُهُ إِلاَّ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ

فَأُوحِيَ إِلَىَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِكُمْ، مِثْلَ

أَوْ قَرِيبًا لاَ أَدْرِي أَىَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ

مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ

يُقَالُ مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ

أَوِ الْمُوقِنُ لاَ أَدْرِي بِأَيِّهِمَا قَالَتْ أَسْمَاءُ

فَيَقُولُ هُوَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى

فَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا

هُوَ مُحَمَّدٌ‏

ثَلاَثًا

فَيُقَالُ نَمْ صَالِحًا

قَدْ عَلِمْنَا إِنْ كُنْتَ لَمُوقِنًا بِهِ

وَأَمَّا الْمُنَافِقُ

أَوِ الْمُرْتَابُ لاَ أَدْرِي أَىَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ

فَيَقُولُ لاَ أَدْرِي

سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ ‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا

ان سے وہیب نے

ان سے ہشام نے فاطمہ کے واسطے سے نقل کیا

وہ اسماء سے روایت کرتی ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی

وہ نماز پڑھ رہی تھیں

میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے ؟

تو انھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا ( یعنی سورج کو گہن لگا ہے )

اتنے میں لوگ ( نماز کے لیے ) کھڑے ہو گئے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا

اللہ پاک ہے

میں نے کہا ( کیا یہ گہن ) کوئی ( خاص ) نشانی ہے ؟

انھوں نے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں ! پھر میں ( بھی نماز کے لیے ) کھڑی ہو گئی

حتیٰ کہ مجھے غش آنے لگا

تو میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی

پھر ( نماز کے بعد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت بیان فرمائی

پھر فرمایا

جو چیز مجھے پہلے دکھلائی نہیں گئی تھی آج وہ سب اس جگہ میں نے دیکھ لی

یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا

اور مجھ پر یہ وحی کی گئی کہ

تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے

""مثل"" یا ""قرب"" کا کون سا لفظ حضرت اسماء نے فرمایا

میں نہیں جانتی

فاطمہ کہتی ہیں ( یعنی ) فتنہ دجال کی طرح ( آزمائے جاؤ گے )

کہا جائے گا ( قبر کے اندر کہ ) تم اس آدمی کے بارے میں کیا جانتے ہو ؟

تو جو صاحب ایمان یا صاحب یقین ہو گا

کون سا لفظ فرمایا حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے

مجھے یاد نہیں

وہ کہے گا وہ محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

جو ہمارے پاس اللہ کی ہدایت اور دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے ان کو قبول کر لیا

اور

ان کی پیروی کی

وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

تین بار ( اسی طرح کہے گا ) پھر ( اس سے ) کہہ دیا جائے گا کہ

آرام سے سو جا بیشک ہم نے جان لیا کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھتا تھا

اور بہرحال منافق یا شکی آدمی ، میں نہیں جانتی کہ

ان میں سے کون سا لفظ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا

تو وہ ( منافق یا شکی آدمی ) کہے گا کہ

جو لوگوں کو میں نے کہتے سنا میں نے ( بھی ) وہی کہہ دیا

( باقی میں کچھ نہیں جانتا )

67 بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ

عَلَى أَنْ يَحْفَظُوا الإِيمَانَ وَالْعِلْمَ وَيُخْبِرُوا مَنْ وَرَاءَهُمْ

وَقَالَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ قَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ، فَعَلِّمُوهُمْ

نبی ﷺ کا عبد القیس کے لوگوں کو اس بات کی ترغیب دینا

کہ

ایمان اور علم کی باتیں یاد کر لیں

اور

جو لوگ ان کے پیچھے(اپنے ملک ) میں ہیں ۔ان کو خبر کر دیں

اور

مالک بن حویرث نے کہا

ہم سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا

اپنے گھر والوں کے پا سلوٹ جاؤ ان کو (دین) کی باتیں سکھاؤ

حدیث 87

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ

قَالَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ

قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ

قَالَ كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَبَيْنَ النَّاسِ

فَقَالَ

إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏مَنِ الْوَفْدُ

أَوْ مَنِ الْقَوْمُ ‏

قَالُوا رَبِيعَةُ‏.‏ فَقَالَ ‏

مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ

أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلاَ نَدَامَى

قَالُوا إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ

وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَىُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ

وَلاَ نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلاَّ فِي شَهْرٍ حَرَامٍ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نُخْبِرْ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا

نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ‏

فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ

وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ أَمَرَهُمْ بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ‏

قَالَ

هَلْ تَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ ‏

قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ‏.‏ قَالَ ‏

شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلاَةِ

وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ

وَصَوْمُ رَمَضَانَ

وَتُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ ‏

وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ‏

قَالَ شُعْبَةُ رُبَّمَا قَالَ النَّقِيرِ

وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ‏

قَالَ ‏

احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا

ان سے غندر نے

ان سے شعبہ نے ابوجمرہ کے واسطے سے بیان کیا کہ

میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا

( ایک مرتبہ ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے ؟

یا یہ کون لوگ ہیں ؟

انھوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان ( کے لوگ ہیں )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو ( آنا ) یا مبارک ہو

اس وفد کو ( جو کبھی ) نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو ( اس کے بعد )

انھوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں

اور

ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ ( پڑتا ) ہے

( اس کے خوف کی وجہ سے ) ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام میں نہیں آ سکتے

اس لیے ہمیں کوئی ایسی ( قطعی ) بات بتلا دیجیئے کہ

جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو خبر دے دیں

( اور ) اس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے روک دیا

اول انہیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں

( پھر ) فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے ؟

انھوں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ )

اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں

اور یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا

زکوٰۃ ادا کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو

اور

چار چیزوں سے منع فرمایا

دباء

حنتم

اور

مزفت

کے استعمال سے

اور ( چوتھی چیز کے بارے میں ) شعبہ کہتے ہیں کہ

ابوجمرہ بسا اوقات نقير کہتے تھے اور بسا اوقات مقير‏

( اس کے بعد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

ان ( باتوں کو ) یاد رکھو اور اپنے پیچھے ( رہ جانے ) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو

68باب الرِّحْلَةِ فِي الْمَسْأَلَةِ النَّازِلَةِ وَتَعْلِيمِ أَهْلِهِ

کوئی مسئلہ پیش آئے تو اس کے لئے سفر کرنا

حدیث 88

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ

قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ

قَالَ أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ

قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ

أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ

فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ بِهَا‏

فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلاَ أَخْبَرْتِنِي‏

فَرَكِبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالْمَدِينَةِ فَسَأَلَهُ

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏

كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ ‏ فَفَارَقَهَا عُقْبَةُ، وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ‏

ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا

انہیں عبداللہ نے خبر دی

انہیں عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی

ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے عقبہ ابن الحارث کے واسطے سے نقل کیا کہ

عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ

میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے

اس کو دودھ پلایا ہے

نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے

( یہ سن کر ) عقبہ نے کہا

مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے

تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے

اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کس طرح ( تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے )

حالانکہ ( اس کے متعلق یہ ) کہا گیا

تب عقبہ بن حارث نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا

اور اس نے دوسرا خاوند کر لیا

69 باب التَّنَاوُبِ فِي الْعِلْمِ

علم حاصل کرنے کیلئے باری مقرر کرنا

حدیث 89

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ

أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ

عَنِ الزُّهْرِيِّ

ح

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا يُونُسُ

عَنِ ابْنِ شِهَابٍ

عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ

عَنْ عُمَرَ، قَالَ كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ

لِي مِنَ الأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ

وَهْىَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ

وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم

يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْىِ وَغَيْرِهِ

وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ

فَنَزَلَ صَاحِبِي الأَنْصَارِيُّ يَوْمَ نَوْبَتِهِ

فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا‏

فَقَالَ أَثَمَّ هُوَ فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ‏

قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي

فَقُلْتُ طَلَّقَكُن

َّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ لاَ أَدْرِي‏

ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم

فَقُلْتُ

وَأَنَا قَائِمٌ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ

قَالَ ‏

لاَ ‏

فَقُلْتُ اللَّهُ أَكْبَرُ‏

 

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا

انہیں شعیب نے زہری سے خبر دی ( ایک دوسری سند سے )

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ

ابن وہب کو یونس نے ابن شہاب سے خبر دی

وہ عبیداللہ بن عبداللہ ابن ابی ثور سے نقل کرتے ہیں

وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے

وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ

میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی دونوں اطراف مدینہ کے ایک گاؤں بنی امیہ بن زید میں رہتے تھے

جو مدینہ کے ( پورب کی طرف ) بلند گاؤں میں سے ہے

ہم دونوں باری باری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے

ایک دن وہ آتا ، ایک دن میں آتا

جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ ) دیگر باتوں کی

اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا

تو ایک دن وہ میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے روز حاضر خدمت ہوا

( جب واپس آیا ) تو اس نے میرا دروازہ بہت زور سے کھٹکھٹایا اور ( میرے بارے میں پوچھا کہ )

کیا عمر یہاں ہیں ؟ میں گھبرا کر اس کے پاس آیا

وہ کہنے لگا کہ ایک بڑا معاملہ پیش آ گیا ہے

( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے )

پھر میں ( اپنی بیٹی ) حفصہ کے پاس گیا ، وہ رو رہی تھی

میں نے پوچھا

کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ہے ؟

وہ کہنے لگی میں نہیں جانتی

پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا

میں نے کھڑے کھڑے کہا کہ

کیا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں

( یہ افواہ غلط ہے ) تب میں نے ( تعجب سے ) کہا

الله اكبر

اللہ بہت بڑا ہے