آڈیو 4

54 باب مَنْ جَعَلَ لأَهْلِ الْعِلْمِ أَيَّامًا مَعْلُومَةً

جو شخص علم سیکھنے والوں کیلئے کچھ دن متعین کر دے

حدیث 70

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ

قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ

عَنْ أَبِي وَائِلٍ

قَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ

فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ‏

قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ

وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم

يَتَخَوَّلُنَا بِهَا، مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا‏

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا

ان سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا

وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں کہ

عبداللہ ( ابن مسعود ) رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ سنایا کرتے تھے

ایک آدمی نے ان سے کہا

اے ابوعبدالرحمن ! میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیں ہر روز وعظ سنایا کرو

انھوں نے فرمایا

تو سن لو کہ مجھے اس امر سے کوئی چیز مانع ہے تو یہ کہ

میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کہیں تم تنگ نہ ہو جاؤ

اور

میں وعظ میں تمہاری فرصت کا وقت تلاش کیا کرتا ہوں

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے

کہ

ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں

وعظ کے لیے ہمارے اوقات فرصت کا خیال رکھتے تھے

55 باب مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ

اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہےا سے دین کی سمجھ دے دیتا ہے

حدیث 71

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ

قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ

عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ

خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏

مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ

وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي

وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ

لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ ‏

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا

ان سے وہب نے یونس کے واسطے سے نقل کیا

وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں ، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ

میں نے معاویہ سے سنا

وہ خطبہ میں فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ

جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے

اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں

دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی

اور

جو شخص ان کی مخالفت کرے گا

انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا

یہاں تک کہ اللہ کا حکم ( قیامت ) آ جائے ( اور یہ عالم فنا ہو جائے )

56باب الْفَهْمِ فِي الْعِلْمِ

علم کیلیے عقل کی ضرورت ہے

حدیث 72

حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ

قَالَ قَالَ لِي ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ

قَالَ صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلَمْ أَسْمَعْهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم

إِلاَّ حَدِيثًا وَاحِدًا

قَالَ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأُتِيَ بِجُمَّارٍ فَقَالَ ‏

إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً مَثَلُهَا كَمَثَلِ الْمُسْلِمِ ‏

فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ هِيَ النَّخْلَةُ، فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَكَتُّ

قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏

هِيَ النَّخْلَةُ ‏

ہم سے علی ( بن مدینی ) نے بیان کیا

ان سے سفیان نے

ان سے ابن ابی نجیح نے مجاہد کے واسطے سے نقل کیا

وہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدینے تک رہا

میں نے ( اس ) ایک حدیث کے سوا

ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اور حدیث نہیں سنی

وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک گابھا لایا گیا

( اسے دیکھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

درختوں میں ایک درخت ایسا ہے اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے

( ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ سن کر ) میں نے ارادہ کیا کہ عرض کروں کہ

وہ ( درخت ) کھجور کا ہے

مگر

چونکہ میں سب میں چھوٹا تھا اس لیے خاموش رہا

( پھر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا

کہ وہ کھجور ہے

57 باب الاِغْتِبَاطِ فِي الْعِلْمِ وَالْحِكْمَةِ وَقَالَ عُمَرُ تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا

علم اور دانائی میں رشک کرنا

حدیث 73

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ

قَالَ حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ

عَلَى غَيْرِ مَا حَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ

قَالَ سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ

قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ

قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏

لاَ حَسَدَ إِلاَّ فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالاً فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ

فَهْوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا ‏

ہم سے حمیدی نے بیان کیا

ان سے سفیان نے

ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے دوسرے لفظوں میں بیان کیا

ان لفظوں کے علاوہ جو زہری نے ہم سے بیان کئے

وہ کہتے ہیں میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا

انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے سنا

وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ

حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے

ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے

اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو

راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو

اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت ( کی دولت ) سے نوازا ہو

اور

وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور ( لوگوں کو ) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو

حضرت موسیٰ کا سمندر کے کنارے خضر کی تلاش میں جانا

وَقَالَ عُمَرُ تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا

حدیث 74

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ

قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ

قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي

عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ

حَدَّثَ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هُوَ خَضِرٌ‏

فَمَرَّ بِهِمَا أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ

فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ

فَقَالَ إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي

هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ

هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَذْكُرُ شَأْنَهُ قَالَ نَعَمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏

بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ

قَالَ مُوسَى لاَ‏

فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى

عَبْدُنَا خَضِرٌ

فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ

فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً

وَقِيلَ لَهُ إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ

فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ

وَكَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ

فَقَالَ لِمُوسَى فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ

وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلاَّ الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ‏

قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي

فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا

فَوَجَدَا خَضِرًا‏

فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ

عَزَّ وَجَلَّ

فِي كِتَابِهِ ‏

وَقَوْلِهِ تَعَالَی هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدً

ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا

ان سے یعقوب بن ابراہیم نے

ان سے ان کے باپ ( ابراہیم ) نے

انھوں نے صالح سے سنا

انھوں نے ابن شہاب سے

وہ بیان کرتے ہیں کہ

انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے خبر دی کہ

وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحثے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے

پھر ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ

میں اور میرے یہ رفیق موسیٰ علیہ السلام کے اس ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے انھوں نے ملاقات چاہی تھی

کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ ذکر سنا ہے

انھوں نے کہا

ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے

ایک دن حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے

کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ ( دنیا میں ) کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے ؟

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں

اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے پاس وحی بھیجی

کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے ( جس کا علم تم سے زیادہ ہے )

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر علیہ السلام سے ملنے کی کیا صورت ہے ؟

اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ

جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو ( واپس ) لوٹ جاؤ

تب خضر سے تمہاری ملاقات ہو گی

تب موسیٰ ( چلے اور ) دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے

اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے

کیا آپ نے دیکھا تھا

میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا

موسیٰ علیہ السلام نے کہا

اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی

تب وہ اپنے نشانات قدم پر ( پچھلے پاؤں ) باتیں کرتے ہوئے لوٹے ( وہاں )

انھوں نے خضر علیہ السلام کو پایا

پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے ۔

59 باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏

اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ ‏

آنحضرت ﷺ کا ابن عباس کے لئے دعا کرنا

یااللہ اسے قرآن کا علم دے

حدیث 75

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ

قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ

قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ

عَنْ عِكْرِمَةَ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

قَالَ ضَمَّنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ ‏

اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا

ان سے عبدالوارث نے

ان سے خالد نے عکرمہ کے واسطے سے بیان کیا

وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں

انھوں نے فرمایا کہ

( ایک مرتبہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ( سینے سے ) لگا لیا

اور

دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ

’’ اے اللہ اسے علم کتاب ( قرآن ) عطا فرمائیو

60باب مَتَى يَصِحُّ سَمَاعُ الصَّغِيرِ

کس عمر کا لڑکا حدیث سن سکتا ہے

حدیث 76

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ

قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ

عَنِ ابْنِ شِهَابٍ

عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ

قَالَ أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ

وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الاِحْتِلاَمَ

وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ

فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَىْ بَعْضِ الصَّفِّ وَأَرْسَلْتُ الأَتَانَ تَرْتَعُ

فَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ

فَلَمْ يُنْكَرْ ذَلِكَ عَلَىَّ‏.‏

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا

ان سے مالک نے

ان سے ابن شہاب نے

ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے

وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ

میں ( ایک مرتبہ ) گدھی پر سوار ہو کر چلا

اس زمانے میں میں بلوغ کے قریب تھا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے دیوار ( کی آڑ ) نہ تھی

تو میں بعض صفوں کے سامنے سے گزرا اور گدھی کو چھوڑ دیا

وہ چرنے لگی

جب کہ میں صف میں شامل ہو گیا ( مگر ) کسی نے مجھے اس بات پر ٹوکا نہیں ۔

حدیث 77

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ

قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ

قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ

حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ

عَنِ الزُّهْرِيِّ

عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ

قَالَ عَقَلْتُ مِنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِي وَأَنَا ابْنُ خَمْسِ سِنِينَ مِنْ دَلْوٍ‏.‏

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا

ان سے ابومسہر نے ، ان سے محمد بن حرب نے

ان سے زبیدی نے زہری کے واسطے سے بیان کیا

وہ محمود بن الربیع سے نقل کرتے ہیں

انھوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ

( ایک مرتبہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول سے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی

اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا

61 باب الْخُرُوجِ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ

علم حاصل کرنے کیلئے سفر کرنا

وَرَحَلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ فِي حَدِيثٍ وَاحِدٍ

حدیث 78

حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ

خَالِدُ بْنُ خَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ

قَالَ قَالَ الأَوْزَاعِيُّ أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ

عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى

فَمَرَّ بِهِمَا أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ

فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ

هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَذْكُرُ شَأْنَهُ فَقَالَ أُبَىٌّ نَعَمْ

سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَذْكُرُ شَأْنَهُ يَقُولُ ‏

بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ

إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ أَتَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ قَالَ مُوسَى لاَ‏

فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مُوسَى بَلَى

عَبْدُنَا خَضِرٌ، فَسَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً

وَقِيلَ لَهُ إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ، فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ

فَكَانَ مُوسَى صلى الله عليه وسلم يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ‏

فَقَالَ فَتَى مُوسَى لِمُوسَى أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ

وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلاَّ الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ‏

قَالَ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي‏

فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا

فَوَجَدَا خَضِرًا

فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ ‏

ہم سے ابوالقاسم خالد بن خلی قاضی حمص نے بیان کیا

ان سے محمد بن حرب نے

اوزاعی کہتے ہیں کہ ہمیں زہری نے عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے خبر دی

وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ

وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے

( اس دوران میں ) ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے

تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلا لیا اور کہا

کہ

میں اور میرے ( یہ ) ساتھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں

جس سے ملنے کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ( اللہ سے ) دعا کی تھی

کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنا ہے ؟

حضرت ابی نے کہا کہ ہاں !

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا حال بیان فرماتے ہوئے سنا ہے

آپ فرما رہے تھے کہ

ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے

کہ

اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں

کہ

دنیا میں آپ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم موجود ہے

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا

کہ

نہیں

تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی

کہ

ہاں ہمارا بندہ خضر ( علم میں تم سے بڑھ کر ) ہے

تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کی راہ دریافت کی

اس وقت اللہ تعالیٰ نے ( ان سے ملاقات کے لیے ) مچھلی کو نشانی قرار دیا

اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ جانا

تب تم خضر علیہ السلام سے ملاقات کر لو گے

حضرت موسیٰ علیہ السلام دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرتے رہے

تب ان کے خادم نے ان سے کہا

کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم پتھر کے پاس تھے

تو میں ( وہاں ) مچھلی بھول گیا

اور مجھے شیطان ہی نے غافل کر دیا

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم اسی ( مقام ) کے تو متلاشی تھے

تب وہ اپنے ( قدموں کے ) نشانوں پر باتیں کرتے ہوئے واپس لوٹے

( وہاں ) خضر علیہ السلام کو انھوں نے پایا

پھر ان کا قصہ وہی ہے

جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے