تلک الرسل

سورةالبقرة مدنیہ

رکوع نمبر 4

261 سے 266َ

جو لوگ اپنے مال

اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں

اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے

جیسے ایک دانا بویا جائے

اور

اُس سے 7 بالیاں نکلیں

اور

ہر بالی میں سو دانے ہیں

اسی طرح اللہ

جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے

وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی

جو لوگ اپنے مال

اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں

اور

خرچ کر کے پھر احسان نہیں جتلاتے

نہ دکھ دیتے ہیں

اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے

اور

اُن کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقعہ نہیں

ایک میٹھا بول

اور

کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی

اُس خیرات سے بہتر ہے

جس کے پیچھے دُکھ ہو

اللہ بے نیاز ہے

اور

بُردباری اس کی صفت ہے

اے ایمان لانے والو

اپنے صدقات کو احسان جتا کر

اور

دُکھ دے کر

اُس شخص کی طرح خاک میں نہ مِلا دو

جو اپنا مال محض

لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے

اور

نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے

نہ آخرت پر

اُس کے خرچ کی مثال ایسی ہے

جیسے ایک چٹان تھی

جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی

اُس پر جب زور کا مینہہ برسا

تو ساری مٹی بہہ گئی

اور

صاف چٹان کی چٹان رہ گئی

ایسے لوگ

اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں

اُس سے کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آتا

اور

کافروں کو سیدھی راہ دکھانا

اللہ کا دستور نہیں ہے

بخلاف

اس کے جو لوگ

اپنے مال محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے

دل کے پورے ثبات وقرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں

اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے

جیسے

کسی سطح مرتفع پر ایک باغ ہو

اگر زور کی بارش ہو جائے

تو دو گنا پھل لائے

اور اگر

زور کی بارش نہ بھی ہو

تو

ایک ہلکی پھوہار ہی

اس کے لئے کافی ہو جائے

تم جو کچھ کرتے ہو

سب اللہ کی نظر میں ہے

کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے

کہ

اس کے پاس ہرا بھرا باغ ہو

نہروں سے سیراب کھجوروں

اور

انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا

اور

وہ عین اُس وقت

ایک تیز بگولے کی زد میں آکر جھلس جائے

جب کہ

وہ خود بوڑھا ہو

اور

اس کے کمسن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں ؟

اس طرح

اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے

شائد کہ تم غورو فکر کرو