تلک الرسل
سورةالبقرة مدنیہ
رکوع 3
آیات 258 سے 260
کیا تم نے
اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا
جس نے ابراہیم سے جھگڑا کیا تھا؟
جھگڑا اس بات پر
کہ
ابراہیمؑ کا رب کون ہے
اور
اس بِنا پر کہ
اُس شخص کو
اللہ نے حکومت دے رکھی تھی
جب ابراہیمؑ نے کہا
میرا رب وہ ہے
جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے
تو اُس نے جواب دیا
زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے
ابراہیمؑ نے کہا
اچھا
اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے
تُو ذرا اسے مغرب سے نکال لا
یہ سُن کر وہ منکرِ حق ششدر رہ گیا
مگر
اللہ ظالمو!!
کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا
یا پھر
مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو
جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا
جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھیں
اُس نے کہا
یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے
اسے
اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟
اس پر اللہ نے اُس کی روح قبض کر لی
اور
وہ سو برس تک مرُدہ پڑا رہا
پھر
اللہ نے اُسے دوبارہ زندگی بخشی
اور
اُس سے پوچھا
بتاؤ کتنی مُدت پڑے رہے ہو ؟
اُس نے کہا
ایک دن یا چندگھنٹے رہا ہوں گا
فرمایا
تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں
اب ذرا
اپنے کھانے اور پینے کو دیکھو
کہ
اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے
دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو
( کہ اسکا پنجِر تک بوسیدہ ہو رہا ہے)
اور
یہ ہم نے اس لئے کیا ہے
کہ
ہم تمہیں لوگوں کیلیۓ
ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں
پھر دیکھو
کہ
ہڈیوں کے اس پنجر کو
ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑہاتے ہیں
اس طرح جب حققیت
اس کے سامنے بالکل نمایاں ہو گئی
تو
اس نے کہا
میں جانتا ہوں کہ
اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
اور
وہ واقعہ بھی پیشِ نظر رہے
جب ابراہیم نے کہا تھا
کہ
میرے مالک مجھے دِکھا دے
تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے
فرمایا
کیا تو ایمان نہیں رکھتا
اُس نے عرض کیا
ایمان تو رکھتا ہوں
مگر
دل کا اطمینان درکار ہے
فرمایا
اچھا
تُو
چار پرندے لے
اور
اُن کو اپنے سے مانوس کر لے
پھر
ان کا ایک ایک ٹکڑا
ایک ایک پہاڑ پے رکھ دے
پھر
ان کو پُکار
وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے
خوب جان لے کہ
اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے