پارہ 16 قال الم

سورةُ طٰہٰ مکیةُ 19

رکوع 16

آیت 116 سے 128

یاد کرو

وہ وقت جب کہ

ہم نے فرشتوں سے کہا تھا

کہ

آدم کو سجدہ کرو

وہ سب تو سجدہ کر گئے

مگر

ایک ابلیس تھا کہ انکار کر بیٹھا

اِس پر ہم نے آدم سے کہا

دیکھو

یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے

ایسا نہ ہو کہ

یہ تمہیں جنت سے نِکلوا دے

اور

تم مصیبت میں پڑ جاؤ

یہاں تو تمہیں یہ آسائشیں حاصل ہیں

کہ

نہ بھوکے ننگے رہتے ہو

نہ پیاس اور دھوپ تمہیں ستاتی ہے

لیکن

شیطان نےاس کوپھسلایا اور کہنے لگا

آدم بتاؤں تمہیں وہ درخت جس سے

ابدی زندگی

اور

لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے؟

آخرکار

(دونوں میاں بیوی ) اُس درخت کا پھل کھاگئے

نتیجہ

یہ ہوا کہ

فورا ان کے ستر ایکدوسرے کے آگےکھل گئے

اور

لگے دونوں اپنے آپ کو

جنت کے پتوں سے ڈھانکنے

آدم ؑ نےاپنے ربّ نافرمانی کی

اور

راہِ راست سے بھٹک گیا

پھر

اُس کے ربّ نے اُسے برگزیدہ کیا

اور

اُس کی توبہ قبول کر لی

اور

اُسے ہدایت بخشی

اور فرمایا

تم دونوں ( فریق یعنی انسان اور شیطان )

یہاں سے اتر جاؤ

تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے

اب اگر

میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے

تو جو کوئی میری

اِس ہدایت کی پیروی کرے گا

وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہوگا

اور

جو میرے ذکر( درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا

اُس کے لیے دنیا میں

تنگ زندگی ہوگی

اور

قیامت کے روز

اُسے ہم اندھا اٹھائیں گے

وہ کہے گا

پروردگار

دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا

یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟

اللہ تعالیٰ فرمائے گا

ہاں اسی طرح تو ہماری آیات کو

جب وہ تیرے پاس آئی تھیں

تُو نے بھُلا دیا تھا

اسی طرح آج تو بھُلایا جا رہا ہے

اس طرح ہم حد سے گزرنے والے

اور

اپنے ربّ کی آیات نہ ماننے والےکو

(دنیا میں) بدلہ دیتے ہیں

اور

آخرت کا عذاب زیادہ سخت

اور دیرپا ہے

پھر کیا

اِن لوگوں کو

(تاریخ کے اِس سبق سے)

کوئی ہدایت نہ ملی

کہ

اِن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو

ہم ہلاک کر چکے ہیں

جِن کی( بربادشدہ )

بستیوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟

در حقیقت

اس میں بہت سی نشانیاں ہیں

اُن لوگوں کے لیے

جو عقلِ سلیم رکھنے والے ہیں