پارہ 16 قال الم
سورةُ طٰہٰ مکیةُ 19
رکوع 13
آیات 77 سے 89
ہم نے موسیٰؑ پر وحی کی کہ
اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ
اور
اُن کے لیے سمندر میں
سے سوکھی سڑک بنا لے
تجھے کسی کے تعاقب کا
ذرا خوف نہ ہو
اور
نہ (سمندر کے بیچ گزرتے ہوئے ) ڈر لگے
پیچھے سے
فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا
اور پھر
سمندر اُن پر چھا گیا
جیسا کہ
چھا جانے کا حق تھا
فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا تھا
کوئی صحیح رہنمائی نہیں تھی
اے بنی اسرائیل
ہم نے تم کو
تمہارے دشمن سے نجات دی
اور
طور کے دائیں جانب تمہاری حاضری کے لیے
وقت مقرر کیا
اور
تم پر من و سلویٰ اتارا
کھاؤ
ہمارا دیا ہوا پاک رزق
اور
اسے کھا کر سرکشی نہ کرو
ورنہ
تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا
اور
جس پر
میرا غضب ٹوٹا
وہ پھر
گِر کر ہی رہا
البتہ
جو توبہ کر لے
اور
ایمان لائے
اور
نیک عمل کرے
پھر
سیدھا چلتا رہے
اُس کے لیے میں بہت
درگزر کرنے والا ہوں
اور
کیا چیز تمہیں
اپنی قوم سے
پہلے لے آئی
موسیٰ نے عرض کیا
وہ بس میرے پیچھے
ہی آ رہے ہیں
میں جلدی کر کے
تیرے حضور آگیا ہوں
اے میرے ربّ
تا کہ تو
مجھ سے خوش ہو جا
فرمایا
اچھا تو سنو
ہم نے تمہارے پیچھے
تمہاری قوم کو
آزمائش میں ڈال دیا
اور
سامری نے انہیں گمراہ کر ڈالا
موسیٰؑ سخت غصے
اور
رنج کی حالت میں
اپنی قوم کی طرف پلٹا جاکر
اُس نے کہا
اے میری قوم کے لوگو
کیا تمہارے ربّ نے تم سے
اچھے وعدے نہیں کیے تھے
کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں ؟
یا تم اپنے ربّ کا غضب ہی
اپنے اوپر لانا چاہتے تھے
کہ
تم نے مجھ سے خلاف ورزی کی؟
انہوں نے جواب دیا کہ
ہم نے خلاف ورزی
کچھ
اپنے اختیار سے نہیں کی
معاملہ یہ ہوا کہ
لوگوں کے زیورات کے بوجھ
سے ہم لد گئے تھے
اور
ہم نے بس اُن کو پھینک دیا تھا
پھر
اس طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا
اور
ان کے لیے
ایک بچھڑے کی مورت بنا کر نکال لایا
جس میں سے
بیل کی سی آوازنکلتی تھی
لوگ پکار اٹھے
یہی ہے
تمہاراللہ
اور
موسیٰؑ کا اللہ
موسیٰؑ اِسے بھول گیا
کیا وہ دیکھتے نہ تھے
کہ
نہ وہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے
اور نہ
ان کے نفع و نقصان کا
کچھ اختیار رکھتا ہے؟