پارہ 15 سبحٰن الذّی  

سورةُ بنی اسراءیل مکیةُ 17

رکوع 7

آیات 61 سے70

اور

یاد کرو

جب کہ

ہم نے ملائکہ سے کہا

کہ

آدم کو سجدہ کرو

تو سب نے سجدہ کیا

مگر

ابلیس نے نہ کیا

اس نے کہا

کیا میں اس کو سجدہ کروں

جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟

پھر وہ بولا

دیکھو تو سہی

کیا یہ اس قابل تھا

کہ

تونے اُسے مجھ پر فضیلت دی ؟

اگر

تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے

تو

میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں

بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اچھا تو جا

ان میں سے جو بھی تیری پیروی کرے

تجھ سمیت

اُن سب کے لیے

جہنم ہی بھرپور جزا ہے

تو جس جس کو اپنی دعوت سے

پھِسلا سکتا ہے پھِسلا لے

ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا

مال اور اولاد میں

ان کے ساتھ سانجھ لگا

اور

اُن کو وعدوں کے جال میں پھانس

اور

شیطان کے وعدے

ایک دھوکے کے سوا

کچھ بھی نہیں

یقینا

میرے بندوں پر تجھے

کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا

اور

توکّل کے لیے

تیرا ربّ کافی ہے

تمہارا

( حقیقی ربّ تو وہ ہے جو سمندر میں)

تمہاری کشتی چلاتا ہے

تا کہ

تم اُس کا فضل تلاش کرو

حقیقت یہ ہے کہ

وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے

جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے

تو

اُس ایک کے سوا

دوسرے جِن جِن کو تم پُکارا کرتے ہو

وہ سب گُم ہو جاتے ہیں

مگر

جب وہ تم کو بچا کر خُشکی پر پہنچا دیتا ہے

تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو

انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے

اچھا

تو کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو

کہ

اللہ کبھی خشکی پر ہی

تم کو زمین میں دھنسا دے

یا

تم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیج دے

اور

تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پاؤ ؟

اور

کیا تمہیں اس اندیشہ نہیں

کہ

اللہ پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے

اور

تمہاری نا شکری کے بدلے تم پر

سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمہیں غرق کر دے

اور

تم کو ایسا کوئی نہ ملے

جو اُس سے تمہارے

اس انجام کی پوچھ گچھ کر سکے ؟

یہ تو ہماری عنایت ہے

کہ

ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی

اور

انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں

اور

اُن کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا

اور

اپنی بہت سی مخلوقات پر

نمایاں فوقیت بخشی