پارہ یعتذرون 11
سورة یوُنس 10 مکیة
رکوع 10
آیات 41 سے53
اگر
یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو
کہ دے کہ
میرا عمل میرے لیے ہے
اور
تمہارا عمل تمہارے لیے
جو کچھ میں کرتا ہوں
اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو
اور
جو کچھ تم کر رہے ہو
اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں
اِن میں بہت سے لوگ ہیں
جو تیری باتیں سنتے ہیں
مگر
کیا تو بہروں کو سنائے گا ؟
خواہ
وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں
اِن میں بہت سے لوگ ہیں
جو تجھے دیکھتے ہیں
مگر
کیا تو اندھوں کو راہ بتائےگا
خواہ
انہیں کچھ نہ سوجھتا ہو؟
حقیقت یہ ہے کہ
اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا
خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں
(آج یہ دنیا کی زندگی میں مست ہیں )
اور
جس روز
اللہ انہیں اکٹھا کرے گا
تو (یہی دنیا کی زندگی انہیں ایسی محسوس ہوگی )
گویا یہ محض
ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھہرے تھے
( اس وقت تحقیق ہو جائے گا کہ )
فی الواقع سخت گھاٹے میں رہے
وہ لوگ جنہوں نے
اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا
اور ہر گز
وہ راہِ راست پر نہ تھے
جِن برے نتائج سے ہم انہیں ڈرا رہے ہیں
اُن کا کوئی حصہ
ہم تیرے جیتے جی دِکھا دیں
یا
اُس سے پہلے ہی تجھے اُٹھا لیں
بہر حال انہیں آنا ہماری ہی طرف ہے
اور
جو کچھ یہ کر رہے ہیں
ان پر اللہ گواہ ہے
ہر اُمت کے لیے ایک رسول ہے
پھر
جب کسی امت کے پاس اُس کا رسول آجاتا ہے
تو اس کا فیصلہ پورے انصاف کے ساتھ چکایا جاتا ہے
اور
اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا
کہتے ہیں اگر
تمہاری یہ دھمکی سچی ہے تو آخر یہ کب پوری ہو گی ؟
کہو
میرے اختیار میں تو
اپنا نفع و ضرر بھی نہیں سب کچھ
اللہ کی مشیت پر موقوف ہے
ہر اُمت کے لیے مہلت کی ایک مدت ہے
جب یہ مدت پوری ہو جاتی ہے
تو
گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر بھی نہیں ہوتی
اِن سے کہو
کبھی تم نے یہ سوچا
کہ اگر
اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آجائے
(تو تم کیا کر سکتے ہو )
آخر یہ ایسی کونسی چیز ہے
جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں؟
کیا جب وہ تم پر آ پڑے
اسی وقت تم اس کو مانو گے ؟
اب بچنا چاہتے ہو؟
حالانکہ
تم خود ہی اس کے جلد آنے کا تقاضہ کر رہے تھے
پھر ظالموں سے کہا جائے گا
کہ
اب ہمیشہ کے عذاب کا مزہ چکھو
اور
جو کچھ تم کماتے رہے ہو
اس کی پاداش کے سوا
اور
کیا بدلہ تم کو دیا جاسکتا ہے؟
پھر پوچھتے ہیں کیا
واقعی یہ سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو ؟
کہو
میرے رب کی قسم یہ بالکل سچ ہے
اور
تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے
کہ
اسے ظہور میں آنے سے روک دو