قال فما خطبکم 27

 سورةالواقعة مکیة 56

رکوع 16

آیات 75سے 96

پس نہیں!!

میں قسم کھاتا ہوں تاروں کے مواقع کی

اور اگر

تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے

کہ

یہ ایک بُلند پایہ قرآن ہے

ایک محفوظ کتاب میں ثبت ہے

جِسے مطہریّن کے سوِا کوئی نہیں چھو سکتا

یہ ربّ العالمین کا نازل کردہ ہے

پھر

کیا اِس کلام کے ساتھ تم بےاعتنائی برتتےہو

اور

اِس نعمت میں اپنا حصّہ تم نے

یہ رکھّا ہےکہ اِسے جھٹلاتے ہو؟

اب اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو

اور

اپنےاس خیال میں سچّے ہو

تو جب مرنے والےکی جان

حلق میں پہنچ چکی ہوتی ہے

اور

تم آنکھوں دیکھ رہے ہوتے ہو

کہ

وہ مر رہا ہے

اُس وقت اُس کی نکلتی ہوئی جان کو

واپس کیوں نہیں لے آتے ؟

اُس وقت تمہاری بہ نسبت

ہم اُس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں

مگر تم کو نظرنہیں آتا

پھر

وہ مرنے والا اگر مقّربین میں سے ہو

تو

ان کے لیے راحت اور عُمدہ رزق

اور

نعمت بھری جنّت ہے

اور

اگر

وہ اصحابِ یمین سے ہو

تو

اسکا استقبال یوں ہوتا ہے

کہ

سلام ہے تجھے

تو اصحاب الیمین میں سے ہے

اور اگر

وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں میں سے ہو

تو

اسکی تواضع کھولتا ہوا پانی ہے

اور

جہنم میں جھونکا جانا

پس اے نبیﷺ

اپنے ربّ عظیم کی تسبیح کرو