الیہ یرد 25
سورة الزخرف مکیة 43
رکوع 9
آیات 26 سے 35
یاد کرو
وہ وقت جب ابراہیمؑ نے
اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا
کہ
تم جن کی بندگی کرتے ہو
میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں
میرا تعلق صرف اُس سے ہے
جس نے مجھے پیدا کیا
وہی میری رہنمائی کرے گا
اور
ابراہیم ؑ یہی کلمہ پیچھے
اپنی اولاد میں چھوڑ گیا
تا کہ
وہ اس کی طرف رجوع کریں
( اس کے باوجود
جب یہ لوگ دوسروں کی بندگی کرنے لگے
تو میں نے ان کو مِٹا نہیں دیا)
بلکہ
میں انہیں اور ان کے
باپ دادا کومتاعِ حیات دیتا رہا
یہاں تک کہ
ان کے پاس حق اور کھول کھول کر
بیان کرنے والا رسولﷺ آگیا
٬ مگر
جب وہ حق ان کے پاس آگیا
تو انھوں نے کہہ دیا
کہ
یہ تو جادو ہے
اور
ہم اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں
کہتے ہیں
یہ قرآن دونوں بڑے شہروں کے
بڑے آدمیوں میں سے کسی پر
نازل کیوں نہ کیا گیا؟
کیا تیرے ربّ کی رحمت
یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟
دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع
تو
ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں
اور
ان میں سے کچھ لوگوں ک
کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے
بدرجہا فوقیت دی ہے
تا کہ
یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں
اور
تیرے ربّ کی رحمت (یعنی نبوت)
اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے
جو (ان کے رئیس ) سمیٹ رہے ہیں
اگر
یہ اندیشہ نہ ہوتا
کہ
سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے
تو ہم
اللہ رحمان سے
کُفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں
اور
اُن کی سیڑھیاں جن سے
وہ
اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں
اور
اُن کے دروازے اور ان کے تخت
جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں
سب چاندی اور سونے کے بنا دیتے ہیں
یہ تو محض حیاتِ دنیا کی متاع ہے
اور
آخرت تیرے ربّ کے ہاں
صرف
متقین کے لیے ہے