امن خلق 20
سورة القصص مکیة 29
رکوع 11
آیات 76سے 82
یہ ایک واقعہ ہے
کہ
قارون اور موسیٰ کی قوم کا
ایک شخص تھا
پھر
وہ اپنی قوم سے سرکش ہو گیا
اور
ہم نے اُس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے
کہ
اُن کی کنجیاں طاقتور آدمیوں کی
ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی
ایک دفعہ جب اس کی قوم کے
لوگوں نے اس سے کہا
پُھول نہ جا
اللہ پھولنے والوں کو
پسند نہیں کرتا
جو مال
اللہ نے تجھے دیا ہے
اس سے آخرت کا
گھر بسانے کی فکر کر
اور
دنیا میں سے اپنا حصہ
فراموش نہ کر
احسان کر جس طرح
اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے
اور
زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر
اللہ مُفسدوں کو پسند نہیں کرتا
تو اُس نے کہا
یہ سب کچھ تو مجھے
اُس علم کی بنا پر دیا گیا ہے
جو مجھ کو حاصل ہے٬
کیا
اس کو یہ علم نہ تھا کہ
اللہ اس سے پہلے ایسے بہت سے
لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے
جو اس سے زیادہ قوت
اور
جمعیت رکھتے تھے؟
مجرموں سے تو اِن کے
گناہ نہیں پوچھے جاتے
ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے
اپنے پوری ٹھاٹھ سے نکلا
جو
لوگ حیاتِ دنیا کے طالب تھے
وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے
کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا
جو قارون کو دیا گیا ہے
یہ تو بڑا نصیبے والا ہے
مگر
جو لوگ علم رکھنے والے تھے
وہ کہنے لگے
افسوس تمہارے حال پر
اللہ کا ثواب بہتر ہے
اُس شخص کے لئے جو ایمان لائے
اور
نیک عمل کرے
اور
یہ دولت نہیں ملتی
مگر
صبر کرنے والوں والوں کو
آخرکار
ہم نے اِسے اور اس کے گھر والوں کو
زمین میں دھنسا دیا
پھر
کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا
جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کو آتا
اور نہ وہ
خود اپنی مدد آپ کر سکا
اب وہی لوگ جو کل
اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے
کہنے لگے
افسوس
ہم بھول گئے تھے
کہ
اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا
رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے
اور
جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے
اگر
اللہ نے ہم پرا حسان نہ کیا ہوتا
تو
ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا
افسوس
کہ
ہم کو یاد نہ رہا
کہ
کافر فلاح نہیں پایا کرتے