پارہ 15 سبحٰن الذّی
سورةُ کھف مکیةُ 18
رکوع 17
آیات 32 سے44
اے نبیﷺ اُن کے سامنے
ایک مثال پیش کرو٬
دو شخص تھے
ان میں سے ایک کو ہم نے
انگور کے دو باغ دیے
اور
ان کے گرد
کھجور کے درختوں کی باڑھ لگائی
اور
اُن کے درمیان کاشت کی زمین رکھی
دونوں باغ خوب پھلے پھولے
اور بارآور ہونے میں انھوں نے ذرا کسربھی نہ چھوڑی
اُن باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کردی٬
اور اُسے خوب نفع حاصل ہوا٬ یہ کچھ پا کر ایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولا٬
میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتا ہوں٬
پھر
وہ اپنی جنت میں داخل ہوا٬ اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا٬
میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہو جائے گی٬ اور مجھے توقع نہیں
کہ
قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی٬ تاہم اگر کبھی مجھے اپنے ربّ کے حضور پلٹایا بھی گیا
تو ضرور اس سے شاندار جگہہ پاؤں گا٬
اُس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا
کیا تو کُفر کرتا ہے اُس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا
اور
تجھے ایک پورا آدمی بنا کھڑا کیا؟
رہا میں تو میرا ربّ تو وہی اللہ ہے٬ اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ٬
اور
جب تو اپنی جنت میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا٬
ماشاءاللہ ٬ لّا قوة اِلاّ باللہ؟
اگر تو مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر پا رہا ہے تو بعید نہیں
کہ
میرا ربّ مجھے تیری جنت سے بہتر عطا فرما دے٬
اور
تیری جنت پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے ٬
جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے
اس کا پانی زمین میں اتر جائے ٬ اور پھر تو اسے کسی طرح نہ نکال سکے٬
آخر کار
ہوا یہ کہ اس کا سارا ثمر مارا گیا٬
اور
وہ اپنے انگوروں کے باغ کوگندگی پر الٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور کہنے لگا
کہ
٬٬کاش !! میں نے اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا ٬
نہ ہوا
اللہ کو چھوڑ کر اس کے پاس کوئی جتھا کہ اس کی مدد کرتا٬ اور نہ کر سکا ـ
وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ اُس وقت معلوم ہوا کہ کارسازی کا اختیار خُدائے برحق ہی کے لیے ہے٬
انعام وہی بہتر ہے جو وہ بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جو وہ دکھائے٬