ومآابری 13 

سورة یوسف 12 مکیة

رکوع 4

آیات 80 سے 93

جب وہ یوسفؑ سے مایوس ہو گئے

تو

ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے

اِن میں سے جو سب سے بڑا تھا

وہ بولا

تم جانتے نہیں ہو کہ

تمہارے والد تم سے

اللہ کے نام پر عہد و پیمان لے چکے ہیں؟

اور

اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملے میں جو تم کر چکے ہو

وہ بھی تم کو معلوم ہے

اب تو میں یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا

جب تک کہ

میرے والد مجھے اجازت نہ دیں

یا پھر

اللہ میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے

کہ

وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے

تم جا کر اپنے والد سے کہو

کہ

ابا جان آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے

ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا

جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے

بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں

اور

غیب کی نگہبانی تو ہم نہیں کر سکتے

آپ اُس بستی کے لوگوں سے

پوچھ لیجیۓ جہاں ہم تھے

اس قافلے سے دریافت کر لیجیے

جس کے ساتھ ہم آئے ہیں

ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں

باپ نے یہ داستان سُن کر کہا

دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے

ایک اور بڑی بات کو سہل بنا دیا

اچھا

اس پر بھی صبر کروں گا

اور

بخوبی کروں گا کیا بعید کہ

اللہ ان سب سے مجھے لا ملائے

وہ سب کچھ جانتا ہے

اور

اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں

پھر

وہ اُن کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا

اور

کہنے لگا

ہائے یوسفؑ وہ دل ہی دل میں غم سے گھُٹا جا رہا تھا

اور

اُس کی آنکھیں سفید پڑ گئیں

بیٹوں نے کہا

خُدارا آپ تو بس یوسفؑ ہی کو یاد کیے جاتے ہیں

نوبت یہ آگئی ہے

کہ

اس کے غم میں اپنے آپ کو گھُلا دیں گے

یا

اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے

اُس نے کہا

میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد

اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا

اور

اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو

میرے بچو

جا کر یوسفؑ اور اُس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ

اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو

اُس کی رحمت سے تو بس

کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں

جب یہ لوگ

مِصر جا کر یوسفؑ کی پیشی میں داخل ہوئے

تو انہوں نے عرض کی

اے سردارِ با اقتدار

ہم اور ہمارے اہل و عیال

سخت مصیبت میں مبتلا ہیں

اور

ہم کچھ حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں

آپ ہمیں بھرپور غلہ عنایت فرمائیں

اور

ہم کو خیرات دیں

اللہ خیرات دینے والوں کو جزا دیتا ہے

( یہ سُن کر یوسف سے نہ رہا گیا )

اُس نے کہا

تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے

کہ

تم نے یوسفؑ اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا

جب تم نادان تھے؟

وہ چونک کر بولے ہائیں کیا تم یوسفؑ ہو؟

اُس نے کہا

ہاں میں یوسفؑ ہوں

اور

یہ میرا بھائی ہے

اللہ نے ہم پر احسان فرمایا

حقیقت یہ ہے کہ

اگر

کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو

اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجر

مارا نہی جاتا

اُنھوں نے کہا

بخُدا تم کو

اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی

اور

واقعی ہم خطا کار تھے

اُس نے جواب دیا

آج تم پر کوئی گرفت نہیں

اللہ تمہیں معاف کرے

جاؤ

میری یہ قمیض لے جاؤ

اور

میرے والد کے منہ پر ڈال دو

ان کی بینائی پلٹ آئے گی

اور

اپنے سب

اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ