آڈیو 3

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ،

قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ

عَنِ ابْنِ شِهَابٍ

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ

أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ

فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَءُ

وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ

وَهُوَ التَّعَبُّد

اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ

وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ

ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ، فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا

حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ

فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ‏

قَالَ ‏"‏ مَا أَنَا بِقَارِئٍ ‏

قَالَ ‏"‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ‏

قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ‏

فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ

ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ‏

فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ

ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ ‏

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ

خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ

اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ‏

فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَرْجُفُ فُؤَادُهُ

فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رضى الله عنها فَقَالَ

‏ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي ‏

فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ

‏"‏ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي ‏

.‏ فَقَالَتْ خَدِيجَةُ

كَلاَّ وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا

إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ

وَتَحْمِلُ الْكَلَّ،

وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ

وَتَقْرِي الضَّيْفَ،

وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ‏

فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ

وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ،

وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ

، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ

فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ‏

فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَبَرَ مَا رَأَى‏

فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى صلى الله عليه وسلم يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا

لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ‏

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏

أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ ‏

.‏ قَالَ نَعَمْ

لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ

وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا‏

ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْىُ‏

ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی ، وہ کہتے ہیں کہ

اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی ،

لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں عقیل ابن شہاب سے

وہ عروہ بن زبیر سے

وہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ

انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا ۔

پھر من جانب قدرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی پسند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی

اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الٰہی و ذکر و فکر میں مشغول رہتے

جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے

توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور

کچھ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے

یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حق منکشف ہو گیا اور

آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ

اچانک حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ

اے محمد ! پڑھو

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا

کہ میری طاقت جواب دے گئی

پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو ، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں

اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی

پھر اس نے کہا کہ پڑھ ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔

فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا

اور کہنے لگا کہ پڑھو

اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا

پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے

پس یہی آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ

مجھے کمبل اڑھا دو ، مجھے کمبل اڑھا دو

لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اڑھا دیا

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر جاتا رہا تو

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا

اور فرمانے لگے کہ

مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھارس بندھائی

اور کہا کہ

آپ کا خیال صحیح نہیں ہے ۔

خدا کی قسم آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا ،

آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں

آپ تو کنبہ پرور ہیں

بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں

مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں

مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں

ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا

پھر مزید تسلی کے لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں

جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے

چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے

( انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا ۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے ) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے

یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کیے

اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی !

اپنے بھتیجے ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے

وہ بولے کہ بھتیجے

آپ نے جو کچھ دیکھا ہے

اس کی تفصیل سناؤ

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا

جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس ( معزز راز دان فرشتہ ) ہے

جسے اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا

کاش ، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا

کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی ۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے ؟

( حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں ) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے

مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں

اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا

مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے

پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی

4 باب

قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ

أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيّ

قَالَ

وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْىِ، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ

‏ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي،

إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا،

مِنَ السَّمَاءِ،

فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ

فَرُعِبْتُ مِنْهُ

فَرَجَعْتُ

فَقُلْتُ زَمِّلُونِي‏

فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏

يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنْذِرْ‏

إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ‏

فَحَمِيَ الْوَحْىُ وَتَتَابَعَ ‏

.‏ تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ وَأَبُو صَالِحٍ‏

وَتَابَعَهُ هِلاَلُ بْنُ رَدَّادٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ‏

وَقَالَ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ ‏"‏ بَوَادِرُهُ

ابن شہاب کہتے ہیں مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے کہا کہ

ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور

میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ

وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا

وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے

میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی

اس وقت اللہ پاک کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں

اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے ! اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا

اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر

اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھ اور گندگی سے دور رہ

اس کے بعد وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی

اس حدیث کو یحییٰ بن بکیر کے علاوہ

لیث بن سعد سے عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح نے بھی روایت کیا ہے

اور عقیل کے علاوہ زہری سے ہلال بن رواد نے بھی روایت کیا ہے

یونس اور معمر نے اپنی روایت میں لفظ "فواده"کی جگہ "بوادره" نقل کیا ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ

قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ

قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ

قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

فِي قَوْلِهِ تَعَالَى ‏

لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ‏ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً

وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ

فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَنَا أُحَرِّكُهُمَا لَكُمْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُحَرِّكُهُمَا‏

وَقَالَ سَعِيدٌ أَنَا أُحَرِّكُهُمَا كَمَا رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَرِّكُهُمَا‏

فَحَرَّكَ شَفَتَيْهِ

فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏

لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ* إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ‏

قَالَ جَمْعُهُ لَهُ فِي صَدْرِكَ

وَتَقْرَأَهُ ‏فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ‏

قَالَ فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ ‏ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ‏ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ‏

فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ ذَلِكَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ

فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ قَرَأَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم كَمَا قَرَأَهُ‏

موسیٰ بن اسماعیل نے ہم سے حدیث بیان کی

ان کو ابوعوانہ نے خبر دی

ان سے موسیٰ ابن ابی عائشہ نے بیان کی

ان سے سعید بن جبیر نے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کلام الٰہی

لا تحرك به لسانك لتعجل به‏

الخ کی تفسیر کے سلسلہ میں سنا کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن کے وقت بہت سختی محسوس فرمایا کرتے تھے

اور اس کی ( علامتوں ) میں سے ایک یہ تھی کہ یاد کرنے کے لیے آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح آپ ہلاتے تھے

سعید کہتے ہیں میں بھی اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کو میں نے ہلاتے دیکھا

پھر انھوں نے اپنے ہونٹ ہلائے ۔

( ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ) پھر یہ آیت اتری کہ

اے محمد !

قرآن کو جلد جلد یاد کرنے کے لیے اپنی زبان نہ ہلاؤ

اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارا ذمہ ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں

یعنی

قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جما دینا

اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے

پھر جب ہم پڑھ چکیں تو اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ( اس کا مطلب یہ ہے ) کہ

آپ اس کو خاموشی کے ساتھ سنتے رہو

اس کے بعد مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے

پھر یقیناً یہ ہماری ذمہ داری ہے

کہ

آپ اس کو پڑھو ( یعنی اس کو محفوظ کر سکو )

چنانچہ اس کے بعد جب آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام ( وحی لے کر ) آتے تو آپ ( توجہ سے ) سنتے

جب وہ چلے جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ( وحی ) کو اسی طرح پڑھتے

جس طرح حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اسے پڑھا تھا

حدیث 6

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ

قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ

قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ

عَنِ الزُّهْرِيِّ

ح وَحَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ

قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ

قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ

وَمَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ

نَحْوَهُ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَجْوَدَ النَّاسِ

، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ

وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ،

فَلَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ‏

ہم کو عبدان نے حدیث بیان کی

انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ، ان کو یونس نے

انھوں نے زہری سے یہ حدیث سنی

( دوسری سند یہ ہے کہ ) ہم سے بشر بن محمد نے یہ حدیث بیان کی

ان سے عبداللہ بن مبارک نے

ان سے یونس اور معمر دونوں نے

ان دونوں نے زہری سے روایت کی پہلی سند کے مطابق زہری سے عبیداللہ بن عبداللہ نے

انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد ( سخی ) تھے

اور

رمضان میں ( دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب ) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے

جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے

غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے