فمن اظلم 24

سورة حٰم الّسجدةِ مکیة 41

رکوع 16

آیات 10 سے 18

اے نبیﷺ ان سے کہو

تم اِس اللہ سے کُفر کرتے ہو

اور

دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہو

جس نے زمین کو دو دنوں میں بنا دیا؟

وہی تو سارے جہان والوں کا ربّ ہے

اُس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد) اوپر سے

اُس پر پہاڑ جما دیے

اور

اس میں برکتیں رکھ دیں

اور

اس کے اندر سب مانگنے والوں کیلیۓ

ہر ایک طلب وحاجت کے مطابق

ٹھیک اندازے سے

خوراک کا سامان مہّیا کر دیا

یہ سب کام چار دن میں ہو گئے

پھر

وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا

جو اس وقت محض دھواں تھا

اِس نے آسمان اور زمین سے کہا

وجود میں آجاؤ

خواہ

تم چاہو یا نہ چاہو

دونوں نے کہا٬

ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح

تب اُس نے

دو دن کے اندر سات آسمان بنادیے

اور

ہر آسمان میں اُس کا

قانونِ وحی کر دیا

اور

آسمانِ دنیا کو ہم نے

چراغوں سے آراستہ کیا

اور

اِسے خوب محفوظ کر دیا

یہ سب کچھ

ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے

اب

اگر

یہ لوگ منہ موڑتے ہیں

تو ان سے کہہ دو

کہ

میں تم کو اُسی طرح کے

ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے

عذاب سے ڈراتا ہوں

جیسا کہ

عاد اور ثمود پر نازل ہوا تھا

جب اللہ کے رسولﷺ

اُن کے پاس

آگے اور پیچھے ہر طرف سے آئے

اور

انھیں سمجھایا

کہ

اللہ کے سِوا

کسی کی بندگی نہ کرو

تو

انہوں نے کہا

ہمارا ربّ چاہتا تو

فرشتے بھیجتا

لہٰذا

ہم اُس بات کو نہیں مانتے

جس کے لیے تم بھیجے گئے ہو

عاد کاحال یہ تھا

کہ

وہ زمین میں کسی حق کے بغیر

بڑے بن بیٹھے

اور کہنے لگے

کون ہے ہم سے زیادہ زور آور؟

اُن کو یہ نہ سوجھا کہ

جس اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے

وہ ان سے زیادہ زورآور ہے؟

وہ ہماری آیات کا

انکار ہی کرتے رہے

آخرکار ہم نے

چند منحوس دنوں میں

سخت طوفانی ہوا اُن پر بھیج دی

تا کہ

انھیں دنیا ہی کی زندگی میں

ذلّت اور رسوائی کے عذاب کا

مزا چکھا دیں

اور

آخرت کا عذاب تو

اس سے بھی زیادہ

رسوا کُن ہے

وہاں کوئی

ان کی مدد کرنے والا نہ ہوگا

رہے ثمود تو ان کے سامنے

ہم نے راہ راست پیش کی

مگر

انہوں نے راستہ دیکھنے کی بجائے

اندھا بنا رہنا ہی پسند کیا

آخر اُن کے کرتوتوں کی بدولت

ذلّت کا عذاب اُن پر ٹوٹ پڑا

اور

ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا

جو ایمان لائے تھے

اور

گمراہی اور بد عملی سے

پرہیز کرتے تھے