پارہ 15 سبحٰن الذّی  

سورةُ بنی اسراءیل مکیةُ 17

رکوع 12

آیات 101 سے 111

ہم نے موسیٰ کو نشانیاں عطا کی تھیں

جو صریح طور پردکھائی دے رہی تھیں

اب یہ تم خود بنی اسرائیل سے پوچھ لو

کہ

جب موسیٰؑ ان کے ہاں آئے تو فرعون نے یہی کہا تھا

نا کہ

اے موسیٰ

میں سمجھتا ہوں

کہ

تو ضرور ایک سحر زدہ آدمی ہے

موسیٰؑ نے اس کے جواب میں کہا

تو خوب جانتا ہے

کہ

یہ بصیرت افروز نشانیاں

زمین اور آسمانوں کے ربّ کے سوا

کسی نے نازل نہیں کی ہیں

اور میرا خیال یہ ہے

کہ

اے فرعون

تو ضرور ایک شامت زدہ آدمی ہے

آخرکار

فرعون نے ارادہ کیا

کہ

موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کو زمین سے اکھاڑ پھینکے

مگر ہم نے

اس کو اوراس کے ساتھیوں کو

اکٹھا غرق کردیا

اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا

اب تم زمین میں بسو

پھر

جب آخرت کے وعدے کا وقت آن پورا ہوگا

تو

ہم تم سب کو ایک ساتھ لا حاضر کریں گے

اس قرآن کو

ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے

اور

حق ہی کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے

اور

اے نبیﷺ

تمہیں ہم نے اس کے سوا

اور

کسی کام کے لیے نہیں بھیجا

کہ

جو مان لے اُسے

(بشارت دے دو اور (جونہ مانےاسے)

متنبہ کردو

اور

اس قرآن کو

ہم نے تھوڑ اتھوڑا کر کے نازل کیا ہے

تا کہ

تم ٹھہر ٹھہر کر اسے لوگوں کو سناؤ

اور

اسےہم نے ( موقع موقع ) بتدریج اتارا

اے نبیﷺ

اِن لوگوں سے کہہ دو

کہ

تم اسے مانو یا نہ مانو

جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے

(سجدہ) انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے

تو

وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں

اور

پُکار اٹھتے ہیں

پاک ہے

ہماراربّ

اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا

اور

وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں

اور

اسے سُن کر

ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے٬(سجدہ)

اے نبیﷺ اِن سے کہو

اللہ کہہ کر پُکارو

یا رحٰمن کہہ کر

جس نام سے بھی پُکارو

اُس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں

اور

اپنی نماز نہ بہت زیادہ بُلند آواز سے پڑھو

اور

نہ بہت پست آواز سے

ان دونوں کے درمیان

اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو

اور کہو

تعریف ہے اس

اللہ کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا

نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے

اور

نہ وہ عاجز ہے

کہ

کوئی اس کا پشتیبان ہو

اور

اس کی بڑائی بیان کر

کمال درجے کی بڑائی