ومآابری 13 

سورة الرّعدِ 13 مدنیة

رکوع 8

آیات 8 سے 18

اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے

جو کچھ اِس میں بنتا ہے

اُسے بھی وہ جانتا ہے

اورجو

کچھ اُس میں کمی اور بیشی ہوتی ہے

اِس سے بھی وہ با خبر رہتا ہے

ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے

وہ پوشیدہ اور ظاہر

ہر چیز کا عالم ہے

وہ بزرگ ہے

اور

ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے

تم میں سے کوئی شخص

خواہ زور سے بات کرے

یا

آہستہ

اور

کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہوا ہو

یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو

اُس کے لیے سب یکساں ہیں

ہر شخص کے آگے اور پیچھے

اس کے مقرر کئے ہوئے

نگران لگے ہوئے ہیں جو

اللہ کے حُکم سے

اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں

حقیقت یہ ہے

کہ

اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا

جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدلتی

اور

جب

اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے

تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی

نہ

اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا

کوئی حامی و مددگار ہو سکتا ہے

وہی ہے

جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے

جنہیں دیکھ کر

تمہیں اندیشے لاحق ہوتے ہیں

ِ اور

امیدیں بھی بندھتی ہیں

وہی ہے

جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے

بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ

اُس کی پاکی بیان کرتی ہے

اور

فرشتے اُس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے

اس کی تسبیح کرتے ہیں

وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے

اور (بسا اوقات ) جِس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے

جب کہ لوگ

اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں

فی الواقع

اس کی چال بڑی زبردست ہے

اسکو پُکارنا برحق ہے

رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں

اُس کو چھوڑکریہ لوگ پُکارتے ہیں

وہ اُن کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں

انہیں پُکارنا تو ایسے ہے

جیسے

کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر

اُس سے درخواست کرے

کہ

تو میرے منہ تک پہنچ جا

حالانکہ

پانی اس تک پہنچنے والا نہیں

بس اسی طرح

کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں

مگر

ایک تیرِ بے ہدف

وہ تو

اللہ ہی ہے

جس کو زمین و آسمانوں کی ہر چیز

طوعا و کرہا سجدہ کر رہی ہے

اور

سب چیزوں کے سائے

صبح و شام اُس کے آگے جھکتے ہیں (سجدہ)

اِن سے پوچھو

آسمانوں زمین کا رب کون ہے؟

کہو

اللہ

پھر اِن سے کہو کہ

جب حقیقت یہ ہے تو کیا

تم نے اُسے چھوڑ کر

ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا

جو خود اپنے لیے بھی

کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ؟

کہو

کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے ؟

کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟

اور

اگر نہیں تو

ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی

اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے

کہ

اُن کی وجہ سے

اِن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہوگیا؟

کہو

ہر چیز کا خالق صرف

اللہ ہے اور وہ یکتا ہے

سب پر غالب

اللہ نے آسمان سے پانی برسایا

اور

ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق

اسے لے کر چل نکلا

پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے

اور

ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں

جنہیں

زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں

اسی مثال سے

اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے

جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے

اور

جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے

وہ زمین پر ٹھہر جاتی ہے

اِس طرح

اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے

جن لوگوں نے اپنے

ربّ کی دعوت قبول کر لی

اُن کے لیے بھلائی ہے

اور

جنہوں نے اِسے قبول نہ کیا

وہ

اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں

اور

اتنی ہی اور فراہم کر لیں

تو وہ اللہ کی پکڑ سے بچنے کے لئے

اِس سب کو

فدیہ میں ڈالنے کو تیار ہوجائیں گے

یہ وہ لوگ ہیں

جِن سے بری طرح حساب لیا جائے گا

اور

ان کا ٹھکانہ جہنم ہے بہت ہی بُرا ٹھکانہ