پارہ ومامن دآبّة 12

سورة یُوسُف 12 مکیة

رکوع 12

آیات 7 سے 20

حقیقت یہ ہے کہ

یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں

اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں

یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے

کہ

اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا

یہ یوسفؑ اور اس کا بھائی دونوں

ہمارے والد کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں

حالانکہ

ہم پورا ایک جتھا ہیں

سچی بات یہ ہے کہ

ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں

چلو یوسف کو قتل کر دو یا اِسے کہیں پھینک دو

تا کہ

تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے

یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا

اِس پر اُن میں سے ایک بولا

یوسف کو قتل نہ کرو

اگر

کچھ کرنا ہی ہے تو

اِسے کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دو

کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا

اس قرارداد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا

ابا جان کیا بات ہے کہ

آپ یوسفؑ کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے

حالانکہ

ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں ؟

کل اِسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیۓ

کچھ چر چُگ لے گا

اور

کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا

ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں

باپ نے کہا

تمہارا اِسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے

اور

مجھے اندیشہ ہے

کہ

کہیں اِسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے

جبکہ تم اس سے غافل ہو

انہوں نے جواب دیا

اگر ہمارے ہوتے

اِسے بھیڑیے نے کھا لیا

جبکہ

ہم ایک جتھا ہیں تب تو ہم بڑے نکمے ہوں گے

اِس طرح اصرار کر کے جب وہ اسے لے گئے

اور

انہوں نے طے کر لیا کہ

اسے ایک اندھے کنوئیں میں چھوڑ دیں

تو ہم نے یوسفؑ کو وحی کی

کہ

ایک وقت آئے گا

جب تُو ان لوگوں کو اُن کی یہ حرکت جتلائے گا

یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں

شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے

اور کہا

ابا جان ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے

اور

یوسفؑ کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا

کہ

اتنے میں بھیڑیا آکر اِسے کھا گیا

آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے

چاہے ہم سچے ہی ہوں

اور

وہ یوسفؑ کی قمیض پر

جھوٹ مُوٹ کا خون لگا کر لے آئے تھے

یہ سُن کر

اُن کے باپ نے کہا

بلکہ

تمہارے نفس نے تمہارے لئے

ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا

اچھا

صبر کروں گا

اور

بخوبی صبر کروں گا

جو بات تم بتا رہے ہو

اس پر

اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے

اُدھر ایک قافلہ آیا

اور

اُس نے اپنے سقّے کو پانی لانےکے لیے بھیجا

سقّے نے جو کنوئیں میں ڈول ڈالا

تو (یوسف کو دیکھ کر) پُکار اٹھا

مبارک ہو

یہاں تو ایک لڑکا ہے

اُن لوگوں نے اُسے

مال تجارت سمجھ کر چھپا لیا

حالانکہ

جو کچھ وہ کر رہے تھے

اللہ اُس سے باخبر تھا

آخر کار

انھوں نے تھوڑی سی قیمت پر

چند درہموں کے عوض اسے بیچ ڈالا

اور

وہ اُس کی قیمت کے بارے میں

کچھ زیادہ کے امیدوار نہ تھے