آڈیو2

 

236باب التَّيَمُّمُ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ

حدیث 330

حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ

قَالَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ

أَخْبَرَنِي الْحَكَمُ

عَنْ ذَرٍّ

عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى

عَنْ أَبِيهِ، قَالَ عَمَّارٌ بِهَذَا

وَضَرَبَ شُعْبَةُ بِيَدَيْهِ الأَرْضَ

ثُمَّ أَدْنَاهُمَا مِنْ فِيهِ

ثُمَّ مَسَحَ وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ‏

وَقَالَ النَّضْرُ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحَكَمِ

قَالَ

سَمِعْتُ ذَرًّا يَقُولُ عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى

قَالَ الْحَكَمُ وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ عَمَّارٌ‏

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا

کہا ہم سے شعبہ نے کہا کہ

مجھے حکم بن عیینہ نے خبر دی ذر بن عبداللہ سے

وہ سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے

وہ اپنے باپ سے کہ عمار نے یہ واقعہ بیان کیا ( جو پہلے گزر چکا )

اور

شعبہ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا

پھر انہیں اپنے منہ کے قریب کر لیا ( اور پھونکا )

پھر ان سے اپنے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا

اور

نضر بن شمیل نے بیان کیا

کہ

مجھے شعبہ نے خبر دی حکم سے

کہ

میں نے ذر بن عبداللہ سے سنا

وہ سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کے حوالہ سے حدیث روایت کرتے تھے

حکم نے کہا کہ

میں نے یہ حدیث ابن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے سنی

وہ اپنے والد کے حوالہ سے بیان کرتے تھے

کہ

عمار نے کہا ( جو پہلے مذکور ہوا )

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا

کہا ہم سے شعبہ نے حکم کے واسطہ سے حدیث بیان کی

وہ ذر بن عبداللہ سے

وہ ابن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے

وہ اپنے والد سے کہ

وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے

اور

حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا

کہ

ہم ایک لشکر میں گئے ہوئے تھے

پس ہم دونوں جنبی ہو گئے

اور

( اس میں ہے کہ بجائے نفخ فيهما‏ کے ) انھوں نے تفل فيهما‏ کہا

حدیث 332

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ

أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ

عَنِ الْحَكَمِ

عَنْ ذَرٍّ

عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ

قَالَ

قَالَ عَمَّارٌ لِعُمَرَ

تَمَعَّكْتُ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم

فَقَالَ ‏

يَكْفِيكَ الْوَجْهُ وَالْكَفَّانِ ‏

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا

کہا ہم سے شعبہ نے حکم سے

وہ ذر بن عبداللہ سے

وہ سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے

وہ اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے

انھوں نے بیان کیا کہ عمار رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا

کہ

میں تو زمین میں لوٹ پوٹ ہو گیا

پھر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا

تو

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کہ

تیرے لیے صرف چہرے اور پہنچوں پر مسح کرنا کافی تھا

( زمین پر لیٹنے کی ضرورت نہ تھی )

حدیث 333

حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ

حَدَّثَنَا شُعْبَةُ

عَنِ الْحَكَمِ

عَنْ ذَرٍّ

عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ

قَالَ شَهِدْتُ عُمَرَ فَقَالَ لَهُ عَمَّارٌ‏

وَسَاقَ الْحَدِيثَ‏

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا

کہا ہم سے شعبہ نے حکم سے

انھوں نے ذر بن عبداللہ سے

انھوں نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے

انھوں نے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے

انھوں نے کہا کہ

میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھا

کہ

عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا

پھر انھوں نے پوری حدیث بیان کی

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ

قَالَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ

حَدَّثَنَا شُعْبَةُ

عَنِ الْحَكَمِ

عَنْ ذَرٍّ

عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى

عَنْ أَبِيهِ

قَالَ قَالَ عَمَّارٌ فَضَرَبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِيَدِهِ الأَرْضَ

فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ‏

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا

کہا ہم سے غندر نے ، کہا کہ

ہم سے شعبہ نے حکم کے واسطے سے

انھوں نے ذر بن عبداللہ سے

انھوں نے ابن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے

انھوں نے اپنے والد سے کہ عمار نے بیان کیا

” پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا

اور

اس سے اپنے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا

237باب الصَّعِيدُ الطَّيِّبُ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ ، يَكْفِيهِ مِنَ الْمَاءِ

وَقَالَ الْحَسَنُ يُجْزِئُهُ التَّيَمُّمُ مَا لَمْ يُحْدِثْ وَأَمَّ ابْنُ عَبَّاسٍ وَهُوَ مُتَيَمِّمٌ

وَقَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ لاَ بَأْسَ بِالصَّلاَةِ عَلَى السَّبَخَةِ وَالتَّيَمُّمِ بِهَا

335حدیث

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ

قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ

قَالَ حَدَّثَنَا عَوْفٌ

قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ

عَنْ عِمْرَانَ

قَالَ كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَإِنَّا أَسْرَيْنَا

حَتَّى كُنَّا فِي آخِرِ اللَّيْلِ

وَقَعْنَا وَقْعَةً وَلاَ وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْهَا

فَمَا أَيْقَظَنَا إِلاَّ حَرُّ الشَّمْسِ

وَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ فُلاَنٌ ثُمَّ فُلاَنٌ ثُمَّ فُلاَنٌ

يُسَمِّيهِمْ أَبُو رَجَاءٍ فَنَسِيَ عَوْفٌ

ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الرَّابِعُ

وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا نَامَ لَمْ يُوقَظْ حَتَّى يَكُونَ هُوَ يَسْتَيْقِظُ

لأَنَّا لاَ نَدْرِي مَا يَحْدُثُ لَهُ فِي نَوْمِهِ

فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ

وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ

وَكَانَ رَجُلاً جَلِيدًا

فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ

فَمَا زَالَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ

حَتَّى اسْتَيْقَظَ لِصَوْتِهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم

فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ قَالَ ‏

لاَ ضَيْرَ

أَوْ لاَ يَضِيرُ

ارْتَحِلُوا ‏

فَارْتَحَلَ فَسَارَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ نَزَلَ

فَدَعَا بِالْوَضُوءِ

فَتَوَضَّأَ وَنُودِيَ بِالصَّلاَةِ فَصَلَّى بِالنَّاسِ

فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلاَتِهِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ قَالَ ‏

مَا مَنَعَكَ يَا فُلاَنُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ ‏

قَالَ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلاَ مَاءَ‏.‏ قَالَ ‏

عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ

فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ ‏

ثُمَّ سَارَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ مِنَ الْعَطَشِ فَنَزَلَ

فَدَعَا فُلاَنًا

كَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَاءٍ نَسِيَهُ عَوْفٌ

وَدَعَا عَلِيًّا فَقَالَ ‏

اذْهَبَا فَابْتَغِيَا الْمَاءَ ‏

فَانْطَلَقَا فَتَلَقَّيَا امْرَأَةً بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ

أَوْ سَطِيحَتَيْنِ

مِنْ مَاءٍ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا

فَقَالاَ لَهَا أَيْنَ الْمَاءُ قَالَتْ عَهْدِي بِالْمَاءِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ

وَنَفَرُنَا خُلُوفًا‏

قَالاَ لَهَا انْطَلِقِي إِذًا‏

قَالَتْ إِلَى أَيْنَ قَالاَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏

قَالَتِ الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ قَالاَ هُوَ الَّذِي تَعْنِينَ فَانْطَلِقِي‏

فَجَاءَا بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَحَدَّثَاهُ الْحَدِيثَ

قَالَ فَاسْتَنْزَلُوهَا عَنْ بَعِيرِهَا وَدَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِإِنَاءٍ

فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ

أَوِ السَّطِيحَتَيْنِ

وَأَوْكَأَ أَفْوَاهَهُمَا

وَأَطْلَقَ الْعَزَالِيَ

وَنُودِيَ فِي النَّاسِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا‏

فَسَقَى مَنْ شَاءَ

وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ

وَكَانَ آخِرَ ذَاكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِي أَصَابَتْهُ الْجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ قَالَ ‏

اذْهَبْ

فَأَفْرِغْهُ عَلَيْكَ ‏

وَهْىَ قَائِمَةٌ تَنْظُرُ إِلَى مَا يُفْعَلُ بِمَائِهَا

وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أُقْلِعَ عَنْهَا

وَإِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْنَا أَنَّهَا أَشَدُّ مِلأَةً مِنْهَا حِينَ ابْتَدَأَ فِيهَا

فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏

اجْمَعُوا لَهَا ‏

فَجَمَعُوا لَهَا مِنْ بَيْنِ عَجْوَةٍ وَدَقِيقَةٍ وَسَوِيقَةٍ

حَتَّى جَمَعُوا لَهَا طَعَامًا، فَجَعَلُوهَا فِي ثَوْبٍ

وَحَمَلُوهَا عَلَى بَعِيرِهَا

وَوَضَعُوا الثَّوْبَ بَيْنَ يَدَيْهَا قَالَ لَهَا

تَعْلَمِينَ مَا رَزِئْنَا مِنْ مَائِكِ شَيْئًا

وَلَكِنَّ اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَسْقَانَا ‏

فَأَتَتْ أَهْلَهَا

وَقَدِ احْتَبَسَتْ عَنْهُمْ قَالُوا مَا حَبَسَكِ يَا فُلاَنَةُ قَالَتِ الْعَجَبُ

لَقِيَنِي رَجُلاَنِ فَذَهَبَا بِي إِلَى هَذَا الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ

فَفَعَلَ كَذَا وَكَذَا

فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لأَسْحَرُ النَّاسِ مِنْ بَيْنِ هَذِهِ وَهَذِهِ‏

وَقَالَتْ بِإِصْبَعَيْهَا الْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ

فَرَفَعَتْهُمَا إِلَى السَّمَاءِ

تَعْنِي السَّمَاءَ وَالأَرْضَ

أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ حَقًّا

فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِكَ يُغِيرُونَ عَلَى مَنْ حَوْلَهَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

وَلاَ يُصِيبُونَ الصِّرْمَ الَّذِي هِيَ مِنْهُ

فَقَالَتْ يَوْمًا لِقَوْمِهَا مَا أُرَى أَنَّ هَؤُلاَءِ الْقَوْمَ يَدَعُونَكُمْ عَمْدًا

فَهَلْ لَكُمْ فِي الإِسْلاَمِ فَأَطَاعُوهَا فَدَخَلُوا فِي الإِسْلاَمِ‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا

کہ

ہم سے یحییٰ بن سعید نے

کہا کہ ہم سے عوف نے

کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے

انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے

کہ

ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا

اور

مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی

( پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے )

کہ

ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی

سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا

پھر فلاں پھر فلاں

ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے

پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے

اور

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے

یہاں تک کہ

آپ خودبخود بیدار ہوں

کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا

کہ

آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے

اور

یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے

پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے

اسی طرح باآواز بلند

آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے

تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

کوئی ہرج نہیں

سفر شروع کرو

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور چلے

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے

اور

وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا

اور اذان کہی گئی

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو

ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی

جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا

اور

اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا

کہ

اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا

اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی

اور پانی موجود نہیں ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کہ

پاک مٹی سے کام نکال لو

یہی تجھ کو کافی ہے

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا

تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے

اور

فلاں ( یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما ) کو بلایا

ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا

اور

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا

ان دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کہ

جاؤ پانی تلاش کرو

یہ دونوں نکلے

راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی

انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے ؟

تو اس نے جواب دیا کہ

کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی

( یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں )

اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں

انھوں نے اس سے کہا

اچھا ہمارے ساتھ چلو

اس نے پوچھا

کہاں چلوں ؟

انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں

اس نے کہا

اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں

انھوں نے کہا

یہ وہی ہیں

جسے تم کہہ رہی ہو

اچھا اب چلو

آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے

اور سارا واقعہ بیان کیا

عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا

اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے

پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا

اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی

کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں

اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں

پس

جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا ( اور سب سیر ہو گئے )

آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا

جسے غسل کی ضرورت تھی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لے جا اور غسل کر لے

وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی

کہ

اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں

اور

خدا کی قسم ! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا

تو ہم دیکھ رہے تھے

کہ

اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا

پھر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کہ

کچھ اس کے لیے ( کھانے کی چیز ) جمع کرو

لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور ( عجوہ ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا

یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا

تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا

کہ

تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے

لیکن

اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا

پھر وہ اپنے گھر آئی

دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا

کہ

اے فلانی !

کیوں اتنی دیر ہوئی ؟

اس نے کہا

ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ

مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے

جسے لوگ صابی کہتے ہیں

وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا

خدا کی قسم !

وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے

اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا

اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی

یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے

اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے

لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے

یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا

کہ

میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں

تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے ؟

قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی

حضرت ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ

صبا کے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا

اور

ابوالعالیہ نے کہا ہے

کہ

صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں

اور

سورۃ یوسف میں جو اصب کا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی جھک جاؤ کے ہیں

238باب إِذَا خَافَ الْجُنُبُ عَلَى نَفْسِهِ الْمَرَضَ أَوِ الْمَوْتَ أَوْ خَافَ الْعَطَشَ، تَيَمَّمَ

وَيُذْكَرُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ أَجْنَبَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ فَتَيَمَّمَ وَتَلاَ

وَلاَ تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا

فَذَكَرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ

حدیث 336

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ

قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ

هُوَ غُنْدَرٌ

عَنْ شُعْبَةَ

عَنْ سُلَيْمَانَ

عَنْ أَبِي وَائِلٍ

قَالَ قَالَ أَبُو مُوسَى لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ لاَ يُصَلِّي‏

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ رَخَّصْتُ لَهُمْ فِي هَذَا

كَانَ إِذَا وَجَدَ أَحَدُهُمُ الْبَرْدَ قَالَ هَكَذَا

يَعْنِي تَيَمَّمَ وَصَلَّى

قَالَ قُلْتُ فَأَيْنَ قَوْلُ عَمَّارٍ لِعُمَرَ

قَالَ إِنِّي لَمْ أَرَ عُمَرَ قَنِعَ بِقَوْلِ عَمَّارٍ‏

ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا

کہا مجھ کو محمد نے خبر دی جو غندر کے نام سے مشہور ہیں

شعبہ کے واسطہ سے

وہ سلیمان سے نقل کرتے ہیں اور وہ ابووائل سے کہ

ابوموسیٰ نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ

اگر ( غسل کی حاجت ہو اور ) پانی نہ ملے تو کیا نماز نہ پڑھی جائے

عبداللہ نے فرمایا ہاں !

اگر مجھے ایک مہینہ تک بھی پانی نہ ملے تو میں نماز نہ پڑھوں گا

اگر اس میں لوگوں کو اجازت دے دی جائے تو

سردی معلوم کر کے بھی لوگ تیمم سے نماز پڑھ لیں گے

ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ

میں نے کہا کہ

پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے

حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قول کا کیا جواب ہو گا

بولے کہ مجھے تو نہیں معلوم ہے

کہ

عمر رضی اللہ عنہ عمار رضی اللہ عنہ کی بات سے مطمئن ہو گئے تھے