سیقول 2
سورةالبقرة مدنیہ
رکوع 9
آیت 197 سے 210
حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں
جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے
اسے خبردار رہنا چاہیے
کہ
حج کے دوران میں
اس سے کوئی شہوانی فعل
کوئی بد عملی
کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو
اور
جو نیک کام تم کرو گے
وہ اللہ کے علم میں ہوگا
سفرِ حج کیلیۓ زادِ راہ ساتھ لے جاؤ
اور
سب سے بہتر زادِ راہ پرہیز گاری ہے
ٌ پس
اے ہوش مندو!!
میری نافرمانی سے پرہیز کرو
اور
اگر
حج کے ساتھ ساتھ
تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ
تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں
پھر
جب عرفات سے چلو تو مشعرِ حرام
( مزدلفہ ) کے پاس ٹھہر کر
اللہ کو یاد کرو
اور
اس طرح یاد کرو
جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے
ورنہ
اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے
پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں
وہیں سے تم بھی پلٹو
اور
اللہ سے معافی چاہو
یقینا
وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
پھر
جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو تو
جس طرح پہلے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کرتے تھے
اس طرح اب اللہ کا ذکر کرو
بلکہ
اس سے بھی بڑھ کر
( مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے )
اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے
جو کہتا ہے
کہ
اے ہمارے رب!!
ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے
ایسے شخ کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں
اور
کوئی کہتا ہے
اے ہمارے رب !!
ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے
اور
آخرت میں بھی بھلائی
اور
آگ کے عذاب سےہمیں بچا
ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ حصہ پائیں گے)
اور
اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی
یہ گنتی کے چند روز ہیں
جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسرکرنے چاہئیں
پھر
جو کوئی جلدی کرکے دو ہی دن میں واپس ہو گیا
تو
کوئی حرج نہیں
اور
جو کچھ دیر زیادہ ٹھہر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں
بشرطیکہ
یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کئے ہوں
اللہ کی نافرمانی سے بچو
اور
خوب جان رکھو
کہ
ایک روز اسکے حضور میں تمہاری
پیشی ہونے والی ہے
انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے
جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں
تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں
اور
اپنی نیک نیتی پر وہ
بار بار خدا کو گواہ ٹھہراتا ہے
مگر
حقیقت میں
وہ بد ترین دشمنِ حق ہوتا ہے
جب
اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے
تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ
اس لئے ہوتی ہے
کہ
فساد پھیلائے کھیتوں کو غارت کرے
اور
نسلِ انسانی کو تباہ کرے
حالانکہ
اللہ ( جسے وہ گواہ بنا رہا تھا )
فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا
اور
جب اس سے کہا جاتا ہے
کہ
اللہ سے ڈر
تو اپنے وقار کا خیال اس کو گناہ پر جما دیتا ہے
ایسے شخص کیلیۓ تو
بس جہنم ہی کافی ہے
اور
وہ بہت برا ٹھکانہ ہے
دوسری طرف انسانوں ہی میں
کوئی ایسا بھی ہے
جو رضائے الہیٰ کی طلب میں
اپنی جان کھپا دیتا ہے
اور
ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے
اے ایمان لانے والو
تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ
اور
شیطان کی پیروی نہ کرو
کہ
وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
جو صاف صاف ہدایات تمہارے پاس آ چکی ہیں
اگر
ان کو پا لینے کے بعد
پھر تم نے لغزش کھائی
تو خوب جان رکھو
کہ
اللہ سب پر غالب اور حکیم اور دانا ہے
( ان ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی
لوگ سیدھے نہ ہوں تو )
کیا اب وہ اس کے منتظر ہیں
کہ
اللہ بادلوِں کے سائے میں آئے
فرشتوں کے پر ساتھ لئے خود سامنے
آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟
آخر کار
سارے معاملات پیش تو
اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں