وقال الذین 19

سورةالفرقان 25

رکوع 1

آیات 21 سے 34

جو لوگ

ہمارے حضور پیش ہونے کا

اندیشہ نہیں رکھتے

وہ کہتے ہیں

کیوں نہ فرشت

ہمارے پاس بھیجے جائیں؟

یا پھر

ہم اپنے ربّ کو دیکھیں

بڑا گھمنڈ لے بیٹھےہیں

یہ اپنے نفس میں

اور

حد سے گزر گئے

یہ اپنی سرکشی میں

جس روز یہ فرشتوں کو دیکھیں گے

وہ مجرموں کے لیے

کسی بشارت کا دن نہ ہوگا

چیخ اٹھیں گے

کہ

پناہ بُخدا

جو کچھ بھی اُن کا کیا دھرا ہے

اُسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے

بس وہی لوگ جو جنت کے مستحق ہیں

ان اچھی جگہہ ٹھہریں گے

اور

دوپہر گزارنے کوعمدہ مقام پائیں گے

آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل

اُس روز نمودار ہوگا

اور

فرشتوں کے پرے کے پرے

اتار دیے جائیں گے

اُس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی

اور

وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہوگا

ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا

اور کہے گا

کاش میں نے رسولﷺ کا ساتھ دیا ہوتا

ہائے میری کم بختی

کاش

میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا

اس کے بہکاوے میں آکر

میں نے وہ نصیحت نہ مانی

جو میرے پاس آئی تھی

شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی

بے وفا نکلا

اور

رسولﷺ کہے گا

اے میرے ربّ میری قوم کے لوگوں نے

اِس قرآن کو نشانِ تضحیک بنا لیا تھا

اے نبیﷺ ہم نے تو اسی طرح

مجرموں کو

ہر نبی کا دشمن بنایا ہے

اور

تمہارے لیے

تمہارا ربّ ہی تمہاری رہنمائی

اور

مدد کے لیے کافی ہے

منکرین کہتے ہیں

اس شخص پر

سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا؟

ہاں

ایسا اس لیے کیا گیا ہے

کہ اس کو

اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں

اور

( اسی غرض کے لیے ) ہم نے

اس کو

ایک خاص ترتیب کے ساتھ

الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے

(اور اس میں یہ مصلحت ہے )

کہ

جب کبھی

وہ تمہارے سامنے نرالی بات

( یا عجیب بات ) لے کر آئے

اس کا ٹھیک جواب بروقت

ہم نے تمہیں دے دیا

اور

بہترین طریقے سے بات کھول دی

جو لوگ اوندھے منہ

جہنم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں

اُن کا موقف بہت برا ہے

اور

ان کی راہ حد درجہ غلط